فوج کی طلبی، آئین کا آرٹیکل 245 کیا ہے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وفاقی حکومت نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) اجلاس کے دوران امن و امان کی مکمل بحالی کی غرض سے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد میں سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔
واضح رہے کہ ایس سی او اجلاس میں مختلف ممالک کے سربراہان و دیگر وی وی آئی پی شخصیات شرکت کریں گی۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان 4 اکتوبر کی شام سے اسلام آباد کے جناح ایونیو اور شاہراہ دستور کے سنگم پر واقع ڈی چوک (ریڈ زون علاقہ) میں احتجاج کی غرض سے مجتمع ہو رہے ہیں اور انہیں روکنے کے لیے پولیس کی جانب سے شیلنگ بھی کی جارہی ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی قیادت میں آنے والا قافلہ بھی اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے اور شنید ہے کہ اس میں شریک افراد دارالخلافے میں کئی روز تک ٹھہرنے کے اہتمام کے ساتھ آرہے ہیں۔
نوٹیفکیشن کے مطابق اسلام آباد میں فوج کی تعیناتی آرٹیکل 245 کے تحت کی گئی ہے اور فوج 5 اکتوبر سے 17 اکتوبر تک وفاقی دارالحکومت میں تعینات رہے گی۔
آرٹیکل 245 کے تحت کیا کچھ ہوسکتا ہے، اہم نکات
آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کیا جا سکتا ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت فوج کے فرائض متعین کیے گئے ہیں۔
فوج بلانے کے فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
فوج کی موجودگی کے دوران ہونے والے اقدامات کو ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
دوسرے معاملات میں ہائی کورٹس کام کرتی رہیں گی۔
آرٹیکل 245 کے عمل میں لانے کے بعد ہائی کورٹ کے اختیارات صرف اس آرٹیکل کی حد تک معطل ہو جاتے ہیں اور وہ اس حکم نامے کو چیلنج نہیں کر سکتی۔ تاہم ہائی کورٹ کی باقی روزمرہ کی کارروائیاں جاری رہتی ہیں اور ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
آرٹیکل 245 اور ایمرجنسی کے نفاذ میں فرق یہ ہے کہ اس آرٹیکل کے تحت فوج بلانے کا حکومت کو کوئی حساب نہیں دینا پڑتا لیکن ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ایک مخصوص مدت کے اندر حکومت کو اسمبلی میں آ کر اس عمل کی توثیق کروانی پڑتی ہے۔
آرٹیکل 245 کی ذیل شقیں:
مسلح افواج وفاقی حکومت کی ہدایات کے تحت، بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے کے خلاف پاکستان کا دفاع کریں گی اور قانون کے تابع شہری حکام کی امداد میں، جب ایسا کرنے کے لیے طلب کی جائیں، کام کریں گی۔
شق 1 کے تحت وفاقی حکومت کی طرف سے جاری شدہ کسی ہدایت کے جواز کو کسی عدالت میں زیرِ اعتراض نہیں لایا جائے گا۔
کوئی عدالت عالیہ کسی ایسے علاقے میں، جس میں پاکستان کی مسلح افواج فی الوقت آرٹیکل 245 کی تعمیل میں شہری حکام کی مدد کے لیے کام کر رہی ہوں، آرٹیکل 199 کے تحت کوئی اختیارِ سماعت استعمال نہیں کرے گی۔ مگر شرط یہ ہے کہ اس شق کا اس دن سے عین قبل جس پر مسلح افواج نے شہری حکام کی مدد کے لیے کام کرنا شروع کیا ہو، کسی زیرِ سماعت کارروائی سے متعلق عدالت عالیہ کے اختیار سماعت کو متاثر کرنا متصور نہیں ہو گا۔
شق 3 میں محولہ کسی علاقہ سے متعلق کوئی کارروائی جسے اس دن یا اس کے بعد دائر کیا گیا ہو، جبکہ مسلح افواج نے شہری حکام کی مدد کے لے کام شروع کیا ہو اور جو کسی عدالتِ عالیہ میں زیرِ سماعت ہو، اس عرصے کے لیے معطل رہے گی، جس کے دوران مسلح افواج بایں طور کام کر رہی ہوں۔