ڈینگی سے جلد صحتیابی کے لیے کو ن سی غذائیں اکسیر؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح اسلام آباد میں بھی ڈینگی کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں ڈینگی کے مجموعی کیسز کی تعداد 1 ہزار 6 سو 76 ہو چکی ہے جس میں سے شہری علاقوں میں رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 651 جبکہ دیہی علاقوں میں 1025 ہے۔
واضح رہے کہ ڈینگی بخار کا کوئی مخصوص علاج نہیں ہوتا اس لیے اس بخار میں مبتلا افراد کو معالجین کی جانب سے بہتر غذا کے استعمال کی ہدایت کی جاتی ہے۔
ابتدائی علامات، کون سی غذائیں بہتر؟
ڈینگی بخار عموماً 5 سے 7 دن تک رہتا ہے لیکن کچھ مریضوں میں یہ دورانیہ طویل بھی ہو سکتا ہے۔ ڈینگی بخار کی طبی علامات میں تیز بخار، شدید سر درد، آنکھوں کے پیچھے درد، پٹھوں اور جوڑوں کا درد، متلی، قے، سوجن، لمف نوڈس، کمزوری، نزلہ اور گلے میں خراش اور دانے شامل ہیں۔
کچھ متاثرہ افراد میں ظاہری علامات پیدا نہیں ہو تیں اور کچھ میں ہلکی علامات جیسے بخار اور خارش ہو سکتی ہے۔
اس دوران غذا ایک اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ بہتر غذا مدافعتی نظام کو بڑھانے اور دیگر پیچیدگیوں کو کم کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ماہر غذائیت عبدالباسط نے ڈینگی بخار میں غذا کی اہمیت کے حوالے سے بتایا کہ ڈینگی کا کوئی مؤثر علاج نہیں ہے اس لیے اس میں تقریبا 80 فیصد کردار بہتر غذا ہے جو مریض کی قوت مدافعت کو بڑھاتی اور جلد صحتیابی میں مدد دیتی ہے۔
عبدالباسط نے کہا کہ ڈینگی بخار میں طبی علاج کے ساتھ ساتھ غذائیت سے بھرپور غذائیں صحت یابی کے لیے ضروری وٹامنز، معدنیات اور اینٹی آکسیڈینٹ فراہم کرتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسےکھانوں کا استعمال کرنا چاہیے جو ہضم کرنے میں آسان ہوں اور مستقل توانائی فراہم کریں۔
غذا کے حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ وائرس جسم کے مدافعتی نظام پر اثر انداز ہوتا ہے اس لیے بیماری کی وجہ سے جسم میں سوزش، بخار، اور دیگر علامات پیدا ہوتی ہیں جو توانائی کی کمی کا باعث بنتی ہیں جس کی وجہ سے مریض سخت اور مسالے دار کھانے ہضم نہیں کر سکتا اس لیے نرم غزائیں جو بآسانی ہضم ہو جاتی ہیں جیسا کہ دلیہ، کھچڑی، اور سوپ جیسی نرم غذائیں کافی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ مریضوں میں ڈی ہائیڈریشن کا مسئلہ بہت زیادہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے پھل جیسے پپیتا (جس میں ایسا انزائم موجود ہوتا ہے اور جو پلیٹلیٹس کی تعداد بڑھانے کے لیے بھی کافی بہتر ہے)، کیلا اور تربوز جسم کو نہ صرف ہائیڈریٹ رکھنے میں مدد دیتے ہیں بلکہ ویسے بھی ان میں دیگر وٹامنز پائے جاتے ہیں جو ہمارے جسم کے لیے نہایت ضروری ہیں۔
اس کے علاوہ سبزیاں، خاص طور پر پتوں والی سبزیاں، وٹامنز اور معدنیات فراہم کرتی ہیں۔
مشروبات میں گاجر، چقندر، انار اور آڑو کا جوس طاقت اور پانی کی کمی کو دور کرتا ہے چونکہ ان میں وٹامن سی پایا جاتا ہے جو قوت مدافعت کے لیے بہت اہم ہے۔
ناریل کا پانی بھی نہ صرف ہائیڈریشن کا ایک بڑا ذریعہ ہے بلکہ یہ میگنیشیم اور پوٹاشیم کا بھی بڑا ذریعہ ہے جو پٹھوں کے درد اور جسمانی کمزوری کو دور کرتا ہے۔ اس کے علاوہ گوشت میں چکن اور مچھلی کا استعمال بہتر ہے جو پروٹین مہیا کرتا ہے۔ جبکہ بیف اور مٹن کا استعمال ہضم کرنے میں مشکل ہوتا ہے اس لیے پرہیز کرنا چاہیے۔
انہوں نے ڈینگی بخار میں پرہیزی غذاؤں کے حوالے سے کہا کہ مسالے دار اور تلی ہوئی اشیا سے مکمل طور پر پرہیز کرنا چاہیے اور اس کے علاوہ چائے اور کافی کا استعمال بالکل نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ جسم میں پانی کی کمی کا سبب بن سکتی ہے۔ میٹھے کھانوں اور مشروبات دونوں سے ہی پرہیز کرنا چاہیے جو نہ صرف مدافعتی نظام اور شوگر لیول کو اثر انداز کرتے ہیں بلکہ سوزش کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔
ڈینگی میں بلڈ پریشر کو برقرار رکھنا بھی بہت ضروری ہے اس لیے نمک کا استعمال صرف اتنا ہونا چاہیے جو آپ کے بلڈ پریشیر کو بڑھنے مت دے۔
عبدالباسط نے کہا کہ مریض کو چاہیے کہ اس دوران وہ فیزیکل ایکٹیوٹیز سے پرہیز کرے کیوں کہ آرام کرنے سے جسم کو انفیکشن کے خلاف لڑنے کا موقع ملتا ہے اور یہ تھکن اور کمزوری کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مناسب آرام سے بخار کی شدت کم ہو سکتی ہے اور مریض کے جلد صحتیابی کے لیے آرام بہت ضروری ہے۔