شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس، پاکستان کے چیلنجز اور مواقع


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس 15 اور 16 اکتوبر کو ہونے جا رہا ہے۔ یہ اجلاس پاکستان کی ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے کیونکہ شنگھائی تعاون تنظیم ایک بہت بڑا پلیٹ فارم ہے جس کے رکن ممالک پوری دنیا کی معیشت کے 25 فیصد حصے کے مالک اور دنیا کی کل آبادی کا 40 فیصد ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ممالک تیل و گیس سمیت لاتعداد معدنی وسائل سے مالا مال ہیں۔
ایس سی او ایک کثیرالجہتی فورم ہے جو دنیا کی مختلف اقوام کو آپس میں بات چیت اور تعاون کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ پاکستان 2017 میں اس تنظیم کا مستقل رکن بنا اور اب پاکستان میں پہلی بار شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس ہونے جا رہا ہے، اس وجہ سے اس کی اہمیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ تاہم، داخلی اور خارجی بحرانوں کا شکار ملک کو اس بین الاقوامی اجلاس کے حوالے سے بعض اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔
اندرونی چیلنجز
اگر اندرونی چیلنجز کی بات کی جائے تو سب سے بڑا چیلنج دہشتگردی ہے۔ حالیہ دنوں میں چینی شہریوں پر ہونے والے دہشتگرد حملے، ترقیاتی منصوبوں پر کام کرتے چینی انجینیئرز پر داسو، کراچی اور دیگر مقامات پر حملوں کے علاوہ افغان سرحد پر مخدوش صورتحال کے تناظر میں اس کانفرنس کے کامیاب انعقاد کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں۔ ملک کی سیاسی صورتحال بھی خاصی ابتر ہے، پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست نے ملک میں بے یقینی کی فضا کو جنم دیا ہے۔ اس کے علاوہ پی ٹی ایم اور بلوچ قوم پرست جماعتوں کی مزاحمت بھی ملک میں سیاسی استحکام کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
بیرونی چیلنجر
بیرونی چیلنجز کی اگر بات کی جائے تو سب سے پہلے اس میں افغانستان کی صورتحال نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ ایران اور مشرق وسطیٰ کی دن بدن خراب ہوتی صورتحال بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ دوسری جانب، بھارت کا معاندانہ رویہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے جس کی وجہ سے سارک تنظیم غیرمؤثر ہے۔ علاوہ ازیں، بھارت کا ایس سی او رکن ہونا بھی اس تنظیم کی اثر پذیری کو کم کرتا ہے۔
پاکستان کے لیے مواقع
ایس سی او کے رکن چین کی جانب سے شروع کیا گیا ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘ تمام رکن ممالک کو جوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان سمیت کئی ممالک میں اس منصوبے کے تحت بڑے صنعتی منصوبے شروع کیے گئے ہیں، یہ منصوبہ علاقائی رابطہ کاری کو وسعت دینے میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔ روس کی جانب سے شروع کیا گیا نارتھ ساؤتھ کوریڈور بھی رکن ممالک کے ساتھ ساتھ یورپ کو بھی منسلک کرنے کے مواقع رکھتا ہے۔
ایس سی او کے تحت توانائی کے مشترکہ پیداواری منصوبے شروع کیے جاسکتے ہیں اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں پر کام کیا جا سکتا ہے۔ ایس سی او کے تحت سب سے اہم اقدام جس پر کام کیا بھی جا رہا ہے وہ علاقائی رابطہ کاری ہے، جس کے ذریعے انفراسٹرکچر کی تعمیر اور لوگوں کے درمیان رابطوں کو مضبوط کیا جاسکتا ہے۔ انسداد دہشتگردی کے حوالے سے یہ پلیٹ فارم بہت مؤثر انداز میں کام کرسکتا ہے۔ انٹیلی جنس شیئرنگ کے نظام کے ذریعے یہ پلیٹ فارم علاقائی سیکیورٹی کے لیے بہت اہم کردار ادا کرنے کے علاوہ عالمی سیکیورٹی کے لیے بھی بہت اہم ہے۔
ایس سی او کے رکن ممالک میں روس اور چین جیسے ممالک بھی شامل ہیں جو ٹیکنالوجی کے میدان میں کافی آگے ہیں۔ اس پلیٹ فارم سے ٹیکنالوجی میں آنے والی نئی جدتوں خواہ ان کا تعلق مصنوعی ذہانت سے ہو یا سائبر سکیورٹی سے، ان کا اشتراک کیا جاسکتا ہے۔ ایس سی او اپنے رکن ممالک کی تعداد بڑھا کر اپنے دائرہ اثر میں اضافہ کر سکتا ہے۔ ایس سی او کے تحت تجارت، آزاد معیشت اور علاقائی سرمایہ کاری کے بے تحاشا مواقع موجود ہیں جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
بھارت کا رویہ رکاوٹ ہے، ایمبیسڈر عبد الباسط
سابق سینئر سفارتکار عبدالباسط نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب سے پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن بنا ہے، اس کے بعد سے پہلی دفعہ اس تنظیم کا اجلاس پاکستان میں ہورہا ہے، اس لیے پاکستان کے نقطہ نظر سے اس اجلاس کی بڑی اہمیت ہے۔ اس سے ہٹ کر یہ اجلاس ہر سال تمام رکن ممالک میں باری باری ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس تنظیم کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کس طرح بدلتے ہوئے ورلڈ آرڈر میں اس نے اپنی اہمیت منوانی ہے۔
ایمبیسیڈر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ دنیا اس وقت ملٹی پولرائزیشن کی طرف اپنا ارتقائی سفر طے کررہی ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم اس ملٹی پولر دنیا میں اپنی حیثیت منوانے کی جدوجہد کررہا ہے، ایس سی او رکن ممالک کے کچھ آپسی اختلافات ایسے ہیں جن پر قابو پانا ممکن نظر نہیں آتا، مثلاً بھارت اس تنظیم کا ایک رکن ملک ہے جس کے تنظیم کے 2 اہم رکن ممالک پاکستان اور چین سے اختلافات ہیں۔ بھارت 4 رکنی ’کواڈ‘ کا حصہ بھی ہے جس میں امریکا، آسٹریلیا اور جاپان شامل ہیں، بھارت امریکا کا اسٹریٹجک اتحادی بھی ہے جس کے روس اور چین کے ساتھ مفادات ٹکراتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہ تنظیم غیرمؤثر رہے گی اور اس کی افادیت بھی محدود رہے گی، یہاں تک کہ کوئی معجزہ ہو اور بھارت کواڈ کو چھوڑ دے کیونکہ ان رکن ممالک کے درمیان باہمی اعتماد کا فقدان ہے اور ایک دوسرے کے خلاف یہ جارحانہ عزائم بھی رکھتے ہیں، ایسی تنظیموں کی اثرپزیری کے لیے میں سمجھتا ہوں کہ دوطرفہ بہتر تعلقات کا ہونا ضروری ہے۔ ایمبیسڈر عبدالباسط نے کہا کہ سارک اور ایس سی او دونوں تنظیموں کے غیرفعال ہونے کی وجہ بھارت ہے تو اس تناظر میں وہ اس اجلاس کے حوالے سے زیادہ پرامید نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے البتہ اس اجلاس کے حوالے سے دہشتگردی اور سیاسی احتجاجات جیسے اندرونی چینلجز پر قابو پا لیا ہے اور اندرونی طور پر حکومت کو اس اجلاس کے انعقاد کے حوالے سے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہوگا، ایمبیسڈر علی سرور نقوی
سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور سابق سفارتکار علی سرور نقوی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے اور ایس سی او ممالک توانائی کے وسائل سے بھرپور ہیں جن سے پاکستان فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے وسط ایشیا اور روس کے ساتھ توانائی کے حصول کے معاہدے زیر التوا ہیں جن میں تاپی گیس پائپ لائن اور نارتھ ساؤتھ پائپ لائن کا منصوبہ شامل ہے، ان منصوبوں کو عملی شکل دینے کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم ایک بہت اچھا پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔
علی سرور نقوی نے کہا کہ پاکستان دنیا کا ایک اہم ملک ہے، گو کہ ایس سی او اجلاس ہر سال ایک رکن ملک میں ہوتا ہے لیکن اس اجلاس کے پاکستان میں منعقد ہونے سے پاکستان کی اہمیت بڑھے گی، اجلاس کے انعقاد کے حوالے سے درپیش دہشتگردی کے خطرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایس سی او کا بنیادی چارٹر دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف تھا، پاکستان میں ہونے والا اجلاس سربراہان حکومت کا اجلاس ہے جس میں معیشت پر بات چیت ہو گی لیکن پاکستان کو دہشتگردی کے جس چیلنج کا سامنا ہے اس کو اس فورم پر اٹھایا جاسکتا ہے۔
اجلاس سالانہ فیسٹیول سے بڑھ کر کچھ نہیں، سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد
سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اس وقت جو سیکیورٹی کی صورتحال ہے اور جس طرح سے ملک کا دارالحکومت محصور ہے، اس کے بعد یقین سے نہیں کہا جسکتا کہ اس کانفرنس کا انعقاد ممکن ہو پائے گا کیونکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک بھی پاکستان کی صورت حال کو دیکھ رہے ہیں اور اس اجلاس کا مقصد ایک سالانہ فیسٹیول سے بڑھ کر کچھ نہیں جس میں سربراہان حکومت آ کر تقریریں کریں گے اور واپس چلے جائیں گے، پاکستان کو اس کانفرنس کے انعقاد سے کیا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں، اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے تو سوچیے بھی مت، بس ایک سالانہ سرگرمی ہے جو ہونے جارہی ہے اور اس سے بڑھ کر اس کا کوئی مقصد نہیں۔