کیا امیر جماعت اسلامی منتخب ہونے کے بعد مولانا ہدایت الرحمان گوادر میں مقبول رہیں گے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مولانا ہدایت الرحمان جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوگئے۔ حال ہی میں جماعت اسلامی کی جانب سے صوبائی امرا کے انتخاب کا مرحلہ مکمل ہوا جس میں مولانا ہدایت الرحمان کو بلوچستان کا صوبائی امیر منتخب کیا گیا۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے صوبائی ترجمان ولی شاکر نے بتایا کہ بلوچستان میں امیر کے انتخاب کا سلسلہ 25 دن قبل شروع ہوا، جس میں سب سے پہلے شوریٰ کی جانب سے صوبائی امیر کے لیے 3 نام دیے گئے جن میں زائد اختر بلوچ، مولانا عبدالکبیر شاکر اور مولانا ہدایت الرحمان کے نام سامنے آئے۔
انہوں نے بتایا کہ بعدازاں پارٹی کے 1400مرد و خواتین اراکین نے خفیہ رائے شماری میں حصہ لیا جس کا نتیجہ 2روز قبل آیا۔ نتیجے کے مطابق مولانا ہدایت الرحمان پارٹی کے صوبائی امیر منتخب ہوئے۔
ولی شاکر نے بتایا کہ 31 اکتوبر تک سابق امیر مولانا عبد الحق ہاشمی امیر کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے جبکہ یکم نومبر سے مولانا ہدایت الرحمان جماعت اسلامی بلوچستان کے نئے امیر کی کرسی پر بیٹھیں گے۔ حلف برداری کے بعد نو منتخب امیر اپنی صوبائی کابینہ کو بھی تشکیل دیں گے۔
واضح رہے کہ مولانا ہدایت الرحمن 3سال کے لیے جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر منتخب ہوئے ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا امیر جماعت اسلامی منتخب ہونے کے بعد ہدایت الرحمان گوادر میں مقبول رہیں گے یا نہیں؟ گودار کے عوامی حلقوں کا ماننا ہے کہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں کی نسبت گوادر بالخصوص مکران ڈویژن کی سیاست ذرا مختلف ہے۔ اس علاقے میں بسنے والی عوام نے سرداروں یا نوابوں کو نہیں بلکہ نظریاتی اور ترقی پسند افراد اور جماعتوں کو ووٹ دے کر ایوان کی جانب بھیجا ہے۔
2021 میں جب مولانا ہدایت الرحمان نے حق دو تحریک کے پلیٹ فارم سے علاقے کی عوام کے بنیادی مسائل جیسے کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کا حل، گوادر کے ماہی گیروں کو درپیش مسائل، صاف پانی کی فراہمی اور چیک پوسٹوں میں خاتمے سمیت مختلف نکات پر مشتمل ایجنڈا حکومت کے سامنے رکھا تو اس وقت گوادر کی عوام نے مولانا ہدایت الرحمان کی مکمل حمایت کی۔
گوادر کی عوام نے مولانا ہدایت الرحمان کی حمایت صرف تحریک میں نہیں بلکہ 2022 کے بلدیاتی اور 2024 میں عام انتخابات کے دوران بھی کی، تاہم یہ نقطہ بھی یہاں اہم ہے کہ حق دو تحریک کی کامیابی کے دوران مولانا ہدایت الرحمان نے کہیں بھی جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم کو استعمال نہیں کیا۔
سیاسی تجزیہ نگار مولانا ہدایت الرحمان کے اس اقدام کو مکمل طور پر سیاسی تصور کرتے ہیں کیونکہ مکران ڈویژن کی عوام ہمیشہ سے کسی جماعت کو نہیں بلکہ نظریے کی بنیاد پر نمائندوں کو منتخب کرتے آئے ہیں۔
ایسے میں مولانا ہدایت الرحمان نے پارٹی کے پلیٹ فارم کے بجائے اپنی تحریک کے زور پر عوام میں مقبولیت حاصل کی۔ لیکن ایوان میں منتخب ہونے کے بعد حکومت کا حصہ بننے کے فیصلہ نے گوادر کی عوام میں مولانا ہدایت الرحمان کو غیر مقبول کیا جس کی واضع مثال حال ہی میں ان کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج میں عوام کی عدم دلچسپی تھی۔
ایوان میں منتخب ہونے کے بعد مولانا ہدایت الرحمان صوبائی دارالحکومت کے ہی ہوکر رہ گئے جس کی وجہ سے گوادر میں سیاسی خلا پیدا ہوا جسے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی آرگنائزر ماہ رنگ بلوچ نے پرکیا۔
تجزیہ نگاروں کا موقف ہے کہ مولانا ہدایت الرحمان کو اپنے حلقے میں دوبارہ جگہ بنانے کے لیے جماعت اسلامی کو صوبے میں فعال بنانے کے لیے کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔