شیری رحمان نے ’ایس سی او اجلاس ‘ کے دوران پی ٹی آئی کے احتجاج کو بدترین طریقہ سیاست قرار دیدیا
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا بدترین طریقہ سیاست یہ ہے کہ اس نے 15 اکتوبر کو ڈی چوک پر احتجاج کا اعلان کر کے جمہوری سیاست کی گنجائش کو یکسر کم کر دیا ہے۔
سینیٹر شیری رحمان کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پی ٹی آئی نے پنجاب میں اپنا احتجاج مؤخر کرنے کا اعلان کیا ہے اور پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں پر زور دیا ہے کہ وہ 15 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے 2 روزہ سربراہ اجلاس کے موقع پر اسلام آباد میں جمع ہوں اور احتجاج کریں۔
پاکستان تحریک انصاف نے اڈیالہ جیل میں قید اپنے بانی عمران خان تک پارٹی رہنماؤں اور اہل خانہ کی فوری رسائی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اس سے قبل حکومت نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے دوران سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر 18 اکتوبر تک جیل میں قیدیوں سے ملنے پر پابندی عائد کردی تھی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس ‘ پر اپنی ایک پوسٹ میں شیری رحمان نے لکھا کہ ’ ایک ایسے موقع پر جب 7 وزرائے اعظم پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں اور اگر پی ٹی آئی شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے دن اسلام آباد میں احتجاج کی کال کے ساتھ آگے بڑھتی ہے، تو پھر اسے کسی کو بھی اس بات کا قصور وار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے کہ پی ٹی آئی اس روّیے کے ساتھ ایک بدترین سیاسی چہرہ رکھتی ہے، یہ کسی بھی طور پر سیاست نہیں ہے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ جب چین کے صدر شی جن پنگ نے 2014 میں اسلام آباد میں تحریک انصاف کے بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہروں پر اپنا دورہ منسوخ کیا تھا تو کوئی بھی پی ٹی آئی کے اس تشدد آمیز روّیے کو نہیں بھولا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ پی ٹی آئی ایسا دوبارہ نہیں کرے گی، ہمیں بھی ماضی میں بدتر حالات میں گرفتار کیا گیا لیکن اس طرح کا روّیہ پھر بھی نہیں اپنایا۔
سابق وفاقی وزیر نے مزید لکھا کہ سربراہ اجلاس کے بعد پی ٹی آئی کے زیادہ تر خدشات دور کیے جاسکتے ہیں، تاہم پارٹی کی ’بدترین وراثت‘ یہ ہے کہ اس نے جمہوری سیاست کے لیے جگہ کو یکسر کم کیا ہے اور انتہا پسندی کا سہارا لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا نے ان کی پوسٹ پر ردعمل دیتے ہوئے سوال کیا کہ کیا انہیں پی ٹی آئی کے ایم این اے کے گھروں پر ہونے والے حملوں کا علم ہے؟
انہوں نے لکھا کہ ’خوف کو قومی خوبصورتی کے طور پر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے؟ ان کے ذاتی معالج کو جیل میں عمران خان صاحب کو دیکھنے دیں۔
ایک روز قبل وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے تحریک انصاف کی جانب سے احتجاج کی کال کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے سیاسی دہشتگردی قرار دیا تھا جس کا مقصد ملک کو بدنام کرنا اور اس کی ترقی اور معاشی استحکام کو روکنا ہے۔
دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ عدالتوں کو احتجاج کی کال کا نوٹس لینا چاہیے۔
خیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے بھی کہا کہ یہ احتجاج ایک سازش کا حصہ ہے، انہوں نے پی ٹی آئی کو مسلسل ملک کے خلاف ایجنڈے پر عمل کرنے اور ریاست کے دشمنوں کے ساتھ تعاون کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا۔
قبل ازیں تاجروں اور تجزیہ کاروں نے پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج کی کال پر ‘شدید تشویش’ کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی قیادت پر زور دیا کہ وہ اس اقدام پر نظر ثانی کرے۔
15 اور 16 اکتوبر کو ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے 23 ویں سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد پہنچنے والے 900 مندوبین کی سیکیورٹی کے لیے وفاقی حکومت نے 10 ہزار سے زیادہ پولیس اور نیم فوجی اہلکار تعینات کیے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں روس کے وزیر اعظم میخائل میشوسٹن، چین کے وزیر اعظم لی کیانگ، ایران کے نائب صدر رضا عریف، بھارتی وزیر خارجہ ایس جئے شنکر اور دیگر رکن ممالک کے رہنما شرکت کریں گے۔ لہٰذا سیکیورٹی ایجنسیاں کسی بھی رکاوٹ کو روکنے کے لیے پرعزم ہیں۔
حکومت نے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت 5 سے 17 اکتوبر تک اسلام آباد میں حفاظتی اقدامات کو مضبوط بنانے کے لیے فوجی دستے تعینات کیے ہیں۔ وفاقی حکومت نے اجلاس میں شرکت کرنے والے مندوبین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے 14 اکتوبر سے دارالحکومت میں 3 روزہ تعطیل کا بھی اعلان کیا ہے۔
دریں اثنا پنجاب حکومت نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے پی اے ایف بیس نور خان راولپنڈی اور نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر غیر ملکی شخصیات کی آمد کے پیش نظر 10 سے 17 اکتوبر تک ضلع راولپنڈی میں 8 روز کے لیے دفعہ 144 نافذ کردی ہے۔