کوئٹہ میں چوری شدہ گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں کہاں فروخت ہوتی ہیں؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بلوچستان ایک جانب جہاں بد امنی اور دہشتگردی کے واقعات کی لپیٹ میں ہے تو دوسری طرف صوبائی درا لحکومت کوئٹہ میں اسٹریٹ کرائم میں مسلسل اضافے نے عوام کی مشکلات مزید بڑھادی ہیں، دن ہو یا رات شہر کے مرکزی علا قوں میں چھینا جھپٹی اور چوری کی وارداتوں میں بدستور اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
محکمہ پولیس کوئٹہ کے جاری کر دہ اعداد شمار کے مطابق رواں بر س 9 ماہ کے دوران راہزنی ، چوری ، ڈکیتی سمیت جرائم کے 822 واقعات رو نما ہوئے جن میں موٹرسائیکل چھینے کے 248 ، گاڑی چھینے کے 21، موٹرسائیکل چوری کے 370 ، گاڑی چوری کے 84، ڈکیتی کے 87جبکہ گھروں میں چوری کے 12واقعات رو نما ہوئے۔
ان وارداتوں میں 1ہزار 607 ملزمان ملوث تھے جن میں سے 662 ملزمان کو پولیس نے حراست میں لیا، اس دوران ملزمان سے برآمد کردہ سامان میں 167 چوری شدہ موٹرسائیکلیں، 89 چھینی گئیں موٹرسائیکلیں ، 43 چوری شدہ گاڑیاں، 12 چھینی گئیں گاڑیوں سمیت اور چوری اور ڈکیتی کا سامان بر آمد کیا گیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق رواں برس چوری کی وارداتوں میں 5 سے 10 فیصد کا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، بالخصوص شہر کے وسطی علا قے جن میں ریڈ زون، جناح روڈ، جی پی او چوک سمیت اہم مقامات پر راہزنی اور چوری کی واقعات رپورٹ ہورہے ہیں۔
دوسری جانب ایس ایس پی آپریشن محمد بلوچ سب اچھا ہے کی راگ آلاپ رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت پولیس کو اسٹریٹ کرائم اور دیگر وارداتوں کی روک تھام میں مدد مل رہی ہے جبکہ گزشتہ برس کی نسبت اس سال اسٹریٹ کرائم کی شرح میں کمی واقع ہو ئی ہے، محکمہ پو لیس عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھارہی ہے۔
’چور با آسانی میری گاڑی کھول کر لے گیا‘
وی نیوز سے بات کر تے ہوئے اسٹریٹ کرائم سے متاثرہ شخص احسن خان نے بتایا کہ گزشتہ ماہ کوئٹہ کے مرکزی علا قے جی پی او چوک سے ملحقہ سڑک سے میری گاڑی چوری ہوئی، قریبی دفتر کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ چور با آسانی میری گاڑی کھول کر لے گیا تاہم جب محکمہ پو لیس کے لگائے گئے سیف سٹی کیمرہ میں گاڑی کو تلاش کر نے کی کوشش کی گئی تو سیف سٹی کیمرے ایئر پورٹ روڈ کے ابتدائی کے بعد کام نہیں کررہے تھے جسکی وجہ سے گاڑی کا سراخ نہیں لگایا جاسکا۔
چوری کی گاڑیاں اور مو ٹرسائیکلز کہاں فروخت ہوتی ہیں؟
کوئٹہ سے چوری اور چھینی جا نے والی گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں اکثر اوقات برآمد نہیں ہوتی تو آخر یہ چھینی گئی اور چوری شدہ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں جاتی کہاں ہیں ؟
ذرائع کا بتانا ہے کہ کوئٹہ سے چوری ہو نے والی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کے ساتھ 2 اقسام کا سلوک ہوتا ہے، پہلا یہ کہ چوری شدہ گاڑی یا مو ٹرسائیکل کو شہر میں کسی نجی جگہ یا کسی پارکنگ میں کھڑا کر دیا جاتا ہے جہاں معاملہ ٹھنڈا ہونے کے بعد ان کے پرزے پرزے کر کے انہیں مقامی مارکٹ میں فروخت کردیا جاتا ہے۔
ملزمان چوری شدہ یا پھر چھینی گئی موٹرسائیکل اور گاڑی کا نشان ہی مٹا دیتے ہیں
اس طریقے سے ملزمان چوری شدہ یا پھر چھینی گئی موٹرسائیکل اور گاڑی کا نشان ہی مٹا دیتے ہیں تاہم دوسرا طریقہ اس سے مختلف ہے، ملزمان واردات کے بعد مو ٹرسائیکل یا گاڑی کو کوئٹہ سے قریبی شہروں تک لے جا تے ہیں جہاں اس موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کو نمبر پلیٹ تبدیل کرکے ان گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو سرعام چلایا جاتا ہے۔
در اصل اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ بلو چستان کے کئی اضلاع ایسے ہیں جہاں گاڑیوں اور مو ٹرسائیکلوں کے کاغذات کی جانچ پڑتال اس طرح نہیں کی جاتی جس طرح صوبے کے مرکزی اضلاع میں ہوتی ہے۔