کراچی میں رواداری مارچ پر تشدد کے بعد پولیس اہلکاروں کو معطل کیوں کیا گیا؟
کراچی (قدرت روزنامہ)کراچی کا ریڈ زون اتوار کو میدان جنگ بنا رہا وجہ یہ رہی کہ سندھ رواداری مارچ اور ایک مذہبی جماعت نے مارچ کے اعلانات کر رکھے تھے، حکومت سندھ نے اس مارچ کے دوران تصادم کے خدشے کے پیش نظر کسی بھی احتجاج پر 5 روز تک پابندی عائد کر دی تھی۔
دوسری جانب سندھ رواداری مارچ کے منتظمین کا کہنا تھا کہ ہم اس پر امن مارچ کا اعلان دفعہ 144 کے نوٹیفکیشن جاری ہونے سے پہلے 3 اکتوبر کو میڈیا کے سامنے کر چکے تھے اور ہماری تیاریاں مکمل تھیں جبکہ یہ ایک پر امن مارچ تھا لیکن دوسری جانب سندھ پولیس کا یہ دعویٰ ہے کہ سیکیورٹی خدشات کے باعث ریڈ زون میں کسی بھی جلسے جلوس، ریلی یا عوامی اجتماع پر پابندی عائد تھی۔
احتجاج کا مقصد عمر کوٹ میں توہینِ مذہب کے الزام میں ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کے پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل اور سندھ میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کرنا تھا، دوسری جانب ایک مذہبی جماعت کی جانب سے بھی مارچ سے ایک روز قبل توہینِ مذہب کے مبینہ ملزم ڈاکٹر شاہ نواز کی پولیس کے ہاتھوں قتل کی حمایت پر ریلی کا اعلان کیا گیا تھا۔
13 اکتوبر اتوار کو 2مختلف نظریات کے حامل گروپس بضد رہے کہ انہیں ریلی نکالنی ہے اس لیے ریڈ زون مکمل سیل ہو چکا تھا تا کہ دونوں ریلیوں کو کسی تصادم سے روکا جا سکے۔
ریڈ زون کا علاقہ عام دنوں کی ٹریفک اور شور شرابے کے برعکس اتوار کو دفاتر کی بندش کے باعث پر سکون رہتا ہے سڑکوں پر کرکٹ کھیلتے لڑکے نظر آتے ہیں لیکن اس دن ماحول ایسا تھا کہ ریڈ زون کے مکین بھی گھبراہٹ کا شکار تھے۔
پولیس نے ریڈ زون کی طرف آنے والے تمام راستوں کو بند کردیا تھا لیکن ’سندھ روادری مارچ’ کے شرکا کی کچھ تعداد کراچی پریس کلب پہنچ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے بضد تھی جس کی وجہ سے 3 تلوار سے ہی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
رواداری مارچ کے شرکا نے کراچی پریس کلب کی طرف پیش قدمی کی اور اسے پریس کلب کے دروازے پر پولیس نے مصنف اور اسکالر جامی چانڈیو کو گھسیٹ کر پولیس وین میں ڈالنے کی کوشش کی جسے بچانے کی کوشش کے دوران پولیس نے خواتین پر دھاوا بول دیا اور جامی چانڈیو کی صاحبزادی رومیسا جامی جو یونیورسٹی آف لندن سے قانون کی طالبہ اور ریسرچر ہیں، انہیں سڑک پر گھسیٹتے ہوئے پولیس وین میں ڈالا ان مناظر کی ویڈیو اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں اور اس کے بعد مارچ کے شرکا سمیت صحافیوں کو بھی پولیس تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
پولیس کی جانب سے’رواداری مارچ‘ اور مذہبی جماعت کے احتجاج کو روکنے کی کوشش کے دوران مشتعل افراد نے پولیس وین کو نذر آتش کر دیا جبکہ پولیس نے لاٹھی چارج کر کے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی، پولیس پر واقعے کو مس ہینڈل کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا حتیٰ کہ بختاور بھٹو زرداری نے بھی پولیس کے اس روّیے کو تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ سینئیر صحافیوں نے اس عمل کو شرمناک قرار دیا۔
معاملے کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے سندھ حکومت بھی ایکشن میں آئی جس پر سندھ پولیس کے ترجمان علی راشد نے بتایا کہ صورتِ حال کو مس ہینڈل کرنے والے پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے، معطل ہونے والوں میں ایک انسپکٹر، 5 خواتین پولیس اہلکار اور 5 مرد پولیس اہلکار شامل ہیں۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ساؤتھ اسد رضا کے مطابق واقعہ میں ملوث پولیس اہلکاروں کےخلاف محکمانہ کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے، مجموعی طور پر 10 اہلکاروں کو فی الفور ان کی ڈیوٹی سےہٹاکر ہیڈکوارٹر بھیج دیاگیا ہے۔
ایس پی ہیڈ کوارٹر کو روزانہ کی بنیاد پر ان کی پریڈ اور تربیت کی ہدایات جاری کردی گئی ہیں، ایس ایس پی سٹی کو معطل اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کرتے ہوئے ان کی سزا کو یقینی بنانے کی ہدایت بھی کردی گئی ہے، معطل اہلکاروں کو سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے شناخت کیا گیا،مزید پولیس اہلکاروں کی شناخت کا عمل جاری ہے، کراچی پریس کلب میں سیکیورٹی پر معمور 2 سینیئر پولیس افسران کےخلاف تادیبی کارروائی کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صحافی برادری سمیت خواتین و بچوں پر کسی بھی طرح کے تشدد یا ناروا سلوک کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی، آئی جی سندھ کی ہدایات پر انکوائری اور ایکشن کا سلسلہ جاری ہے، سندھ پولیس خود احتسابی کے عمل پر یقین رکھتی ہے۔