لاہور میں طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کا معاملہ، ابتدائی رپورٹ سامنے آگئی


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)لاہور کے نجی کالج میں طالبہ کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کے معاملے پر پنجاب حکومت کی ہائی پاور کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ سامنے آگئی۔
ہائی پاور کمیٹی نے مبینہ متاثرہ لڑکی اور والدین سے ان کے گھر پر 3 گھنٹے تک ملاقات کی اور 36 افراد کے بیانات ریکارڈ کیے۔
رپورٹ کے مطابق طالبہ اور والدین نے سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلانے والوں کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرنے کی درخواست دے دی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی بنائی گئی ہائی پاور کمیٹی نے منگل کا سارا دن اسی کیس کی انکوائری میں گزارا۔ سول سیکریٹریٹ میں اعلیٰ سطح کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں تمام عوامل کو تفصیلی طور پر دیکھا گیا۔
کمیٹی نے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران، ڈائریکٹر پنجاب گروپ آف کالجز عارف چوہدری، پرنسپل کالج ڈاکٹر سعدیہ جاوید، اے ایس پی گلبرگ شاہ رخ خان، سیکیورٹی انچارج پنجاب کالج گلبرگ کیمپس 10، ریسکیو آفیسر شاہد اور 28 طالب علموں کے بیان ریکارڈ کیے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کی بنائی گئی ہائی پاور کمیٹی سیکریٹری داخلہ پنجاب کی سربراہی میں متاثرہ طالبہ کے گھر پہنچی اور طالبہ اور والدین کا بیان ریکارڈ کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا میں زیادتی کے واقعہ سے جوڑی جانے والی فرسٹ ایئر کی طالبہ اور اس کے والدین نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بچی 2 اکتوبر کو گھر میں بیڈ سے گری جس کے باعث پہلے جنرل اسپتال، اس کے بعد 3 اکتوبر کو کینٹ میں موجود برین اینڈ سپائن کلینک کے ڈاکٹر صابر حسین سے علاج کروایا۔ بعدازاں 4 اکتوبر کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں اتفاق اسپتال سے علاج شروع کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سانس کی تکلیف کے باعث بچی آئی سی یو میں بھی رہی اور 11 اکتوبر کو اسپتال سے ڈسچارج ہوئی۔
یاد رہے کہ متاثرہ بچی 3 اکتوبر سے 15 اکتوبر تک کالج سے باقاعدہ چھٹی پر رہی اور اس دوران اس کا نام پروپیگنڈا کے تحت زیادتی کے جھوٹے واقعہ سے جوڑا گیا۔
متاثرہ طالبہ اور اس کے والدین نے واضح کیاکہ ان کے ساتھ زیادتی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اور سوشل میڈیا پر مسلسل جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے۔
متاثرہ بچی اور اس کے والدین نے پولیس کو درخواست دی ہے کہ اس کا نام جھوٹے واقعے میں ملوث کرنے والے عناصر کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے اور سخت سے سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
متاثرہ بچی سے گھر جاکر 3 گھنٹے ملاقات کرنے والوں میں سیکریٹری داخلہ پنجاب کے ساتھ سیکریٹری اسپیشل ایجوکیشن، سیکریٹری ہائیر ایجوکیشن، ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ بھی شامل تھیں۔
مذکورہ واقعہ بارے غلط معلومات اور انتشار پھیلانے والوں کے خلاف انکوائری کے لیے ایف آئی اے نے سائبر کرائم سیل کی 7 رکنی کمیٹی بھی قائم کردی ہے۔