پاکستانی تعلیمی اداروں میں جنسی زیادتی و ہراسانی کے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)چند روز قبل لاہور پنجاب کالج میں ہونے والے مبینہ جنسی زیادتی کے واقعہ کو نہ صرف حکومت کی جانب سے بے بنیاد قرار دیا گیا ہے بلکہ لڑکی کے چچا اور والد کی جانب سے بھی پولیس کو یہ بیان دیا گیا ہے کہ جو بھی احتجاج ان کی بیٹی کے نام پر کیا جا رہا ہے، اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
حقیقت کیا ہے؟ فی الحال کچھ کہنا محال ہے لیکن اسی معاملہ پر لاہور کے طلبا اور طالبات نے مسلسل کئی روز شدید احتجاج کیا، مظاہرین کی بڑی تعداد پنجاب کالج کے گلبرگ کیمپس کے باہر اکٹھے ہوئے اور حکومت اور کالج انتظامیہ کے خلاف نعرے لگائے اور مبینہ طور پر متاثرہ طالبہ کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا۔
مبینہ جنسی زیادتی کے واقعہ کے بعد حالات کشیدہ ہوئے اور لاہور سے شروع ہونے والا یہ احتجاج اب دوسرے شہروں میں بھی پھیلتا دکھائی دے رہا ہے، احتجاج کے دوران طلبا نے الزام عائد کیا کہ کالج کی انتظامیہ اس واقعےہ کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس ضمن میں دستیاب تمام شواہد بھی ختم کر دیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے کے دوران خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی میں اسکول کے چوکیدار نے 12سالہ بچی کو مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا، اسی ہفتے میں میڈیا اطلاعات کے مطابق جہلم میں بھی 8 سالہ بچی اسکول کینٹین کے ٹھیکیدار کے ہاتھوں مبینہ زیادتی کا نشانہ بنی۔
واضح رہے کہ صوبہ بھر کے تھانوں میں درج درخواستوں سے حاصل کیے گئے اعدادوشمار کی بناپر جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق 2023 میں پنجاب میں مجموعی طور پر ریپ کے 6624 کیسز رپورٹ ہوئے، فیصل آباد 728 ریپ کیسز کے ساتھ سب سے زیادہ متاثرہ ضلع ہے، اس کے بعد 721 کیسز کے ساتھ لاہور اور 398 کیسز کے ساتھ سرگودھا سرفہرست ہیں۔
پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ساحل کے مطابق گزشتہ برس جنوری سے جون تک 6 ماہ کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 2227 واقعات رپورٹ ہوئے یوں ملک میں روزانہ اوسطاً 12 بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنے، بچوں کے ساتھ زیادتی کے سب سے زیادہ کیسز پنجاب میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
لاہور میں مبینہ جنسی زیادتی کے واقعہ سے قبل پاکستانی تعلیمی اداروں میں جنسی زیادتی کے کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جس میں سے بیشتر میں والدین رپورٹ کرنے سے گھبراتے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں اس نوعیت کی جنسی ہراسانی کے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں؟
سماجی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری نے بتایا کہ تشدد، خاص طور پر عورتوں اور بچوں کے خلاف، صرف تعلیمی اداروں میں نہیں ہورہا ہے۔ ’جب پورے معاشرے میں بچوں کے خلاف جنسی زیادتی کے کیسز میں اضافہ ہوگا تو جامعات سمیت دیگر تعلیمی ادارے بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہیں نا، یہ ایک بیمار معاشرے کی علامت ہے۔‘ڈاکٹر فرزانہ باری کے مطابق جب معاشرہ ذہنی طور پر بیمار ہو جائے تو اس طرح کے جرائم کی جگہ پھر مخصوص نہیں رہتی کیونکہ پھر جرائم پیشہ ذہن معاشرے کے ہر ادارے میں پھیل جاتا ہے۔’ہمارے ہاں ایسا نظام نہیں کہ لوگوں کو ملازمت دیتے ہوئے ان کی اسکریننگ کی جاسکے یا ان کا کرمنل ریکارڈ چیک کیا جاسکے۔‘
ڈاکٹر فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی گارڈز کی نوکری میں انہیں بندوقیں دی جاتی ہیں تو اس نوعیت کی ملازمتوں کے لیے کسی کی خدمات حاصل کرتے ہوئے متعلقہ فرد کی پوری طرح سے جانچ پڑتال کی جائے، ان کے کردار کے حوالے سے تمام تر ریکارڈ دیکھے جائیں۔
’ایک پہلو اس طرح کے کیسز میں یہ بھی ہے کہ ہم کوئی بھی جرم کریں، چاہے کسی کے ساتھ جنسی زیادتی ہو، کسی کو جلا دیں، کسی کا قتل کر دیں، یہاں کوئی نظام تو ہے نہیں، اسی لیے لوگوں میں کوئی خوف بھی نہیں ہے، انہیں یہی لگتا ہے کہ کچھ بھی کر لیا جائے تو وہ بچ نکلیں گے، یہ بہت ہی عام سوچ بن گئی ہے۔‘
ڈاکٹر فرزانہ باری کے مطابق والدین اس نوعیت کے کیسز رپورٹ کرنے سے اس لیے گھبراتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ آخر میں معاشرہ ظلم سہنے والے پر ہی انگلیاں اٹھاتا ہے، خاص طور پر اگر وہ لڑکی ہو تو اس کے لیے بہت ہی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔
’جب والدین اس طرح کی نازیبا باتیں سنتے ہیں تو وہ مزید ڈر جاتے ہیں کہ اگر بیٹی شادی شدہ ہے تو اس کی باقی بہنوں کی شادی میں مسائل آسکتے ہیں، اگر وہ غیر شادی شدہ ہے تو لڑکی کی شادی میں مشکلات آسکتی ہیں اور اگر اس کو رپورٹ کریں گے تو اس کی شناخت سب کے سامنے آ جائے گی۔‘
ایک سوال پر ڈاکٹر فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ اکثر وبیشتر ملزم کسی نہ کسی طرح سے معاشی یا سماجی اعتبار سے کافی طاقتور ہونے کے باعث نظام کو خرید بھی لیتا ہے، ایسے جو ایک آدھ ہمت کرتا ہے وہ بھی اس ساری صورتحال میں بالآخر تھک ہار جاتے ہیں کیونکہ بااثر افراد انتہائی دباؤ سے اپنا کام نکال لیتے ہیں۔‘
آل پاکستان متحدہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین حافظ شہریار خان نے وی نیوز کو بتایا کہ پاکستانی جامعات میں اس طرح کے کیسز میں اضافے کی ایک بہت بڑی وجہ بڑے لوگوں کا ملوث ہونا ہے، بظاہر زیادہ تر کلریکل اسٹاف یا سیکیورٹی گارڈ کیخلاف رپورٹس نظر آتی ہیں۔
’مگر زیادہ تر کیسز میں سیکیورٹی گارڈ صرف اکیلے ملوث نہیں ہوتے ان کے ساتھ کچھ ایسے افراد شامل ہوتے ہیں، جو طاقتور ہوتے ہیں، اس کے علاوہ پاکستان میں اس ضمن میں کوئی قانون سازی نہیں ہے، بہاولپور یونیورسٹی کا واقعہ ہمارے سامنے ہے، اس طرح کے واقعات میں اضافہ کا سبب تادیبی کارروائی کا نہ ہونا بھی ہے۔‘
حافظ شہریار خان کے اندازے کے مطابق جنسی زیادتی اور ہراسانی کے بمشکل 20 سے 25 فیصد کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ ان کیسز کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ والدین کبھی عزت اور کبھی مزید ناانصافی کے ڈر سے اس طرح کے کیسز رپورٹ ہی نہیں کرتے۔
حافظ شہریار نے وی نیوز کو بتایا کہ اس نوعیت کے واقعات میں اساتذہ کا ملوث ہونا بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، تعلیمی اداروں میں ہراسانی اور جنسی زیادتی کے واقعات پر پردہ رکھنا ایک طرح سے معمول بن گیا ہے، پڑھائی چُھٹ جانے کے خوف کی وجہ سے لڑکیاں والدین کو نہیں بتاتیں اور کوشش کرتی ہیں کہ سب کر درگزر کرتے ہوئے پڑھائی مکمل کر لی جائے۔
تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ شہریار کا کہنا تھا کہ تمام اداروں کو اس شعبہ میں ملازمت فراہم کرنے سے قبل پولیس سرٹیفکیٹ کی شرط ناگزیر ہونی چاہیے، اس کے علاوہ پاکستان میں ذہنی بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے جس پر خاص بات نہیں ہوتی، اس ضمن میں بھی مکمل انکوائری ہونی چاہیے۔