سردار اختر مینگل کے بعد کیا بی این پی کے سینیٹرز اور ارکان اسمبلی بھی مستعفی ہوں گے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بدھ کی شب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سابق رکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل کے پارلیمنٹ لاجز کے فلیٹ پر پولیس نے چھاپہ مارا، چھاپے کے دوران فلیٹ میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے قائم مقام صدر ساجد ترین لاجز میں موجود تھے۔
’مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف ووٹ ڈالیں گے‘
ساجد ترین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہمارے 2 سینیٹر اسلام آباد میں موجود ہیں جو پارٹی پالیسی کے مطابق مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف ووٹ ڈالیں گے، ہم ایسے ہتھکنڈوں سے ڈرنے والے نہیں، آئینی ترمیم کے لیے سینیٹرز کسی دباؤ میں نہ آئیں اپنے پارٹی مؤقف پر برقرار ہیں۔
کیا جمہوریت ایسی ہوتی ہے؟ اختر مینگل کا سوال
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے بھی ایکس پر اپنے پیغام میں کہا کہ اسلام آباد میں میرے لاجز پر چھاپے مارے گئے ہیں، میری پارٹی کی سینیٹر نسیمہ احسان اپنے فلیٹ تک محدود ہیں اور ان کے بیٹے کو اغوا کر لیا گیا ہے۔
’میری پارٹی کے دوسرے سینیٹر قاسم رونجو، جو اسلام آباد میں صبح 8 بجے اپنے ڈائیلاسز کے لیے گئے تھے، تب سے اپنے بیٹے کے ساتھ لا پتا ہیں، کیا جمہوریت ایسی ہوتی ہے؟ ‘
’اسلام آباد والے آج تک بلوچستان کا مسئلہ سمجھ نہیں سکے‘
اسلام آباد میں حالیہ حالات سے متعلق بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس کوئٹہ میں کی، جس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے مرکزی رہنما آغا حسن بلوچ نے کہا کہ گزشتہ روز اسلام آباد میں لاجز پر چھاپے سے سردار اختر مینگل کے خدشات درست ثابت ہوئے۔
آغا حسن بلوچ نے کہا کہ بی این پی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر قاسم رونجھو کے گھر پر چھاپہ مار کر ہراساں کیا جارہاہے۔ بی این پی کے سینیٹر قاسم رونجھو کا گزشتہ روز سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔ بی این پی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر نسیمہ احسان کا بیٹا بھی لاپتا ہوگیا ہے۔
آغا حسن بلوچ نے کہا کہ 2 دہائیوں سے بی این پی کو تنگ کیا جارہاہے، 2 دہائیوں سے بی این پی کو ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے تنگ کیا جارہاہے، ہراساں کرنے پر سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دیا۔
انہوں نے کہا کہ جمہوری ممالک میں قانون پاس کرنے کے لیے لوگوں کو لاپتا نہیں کیا جاتا ہے، ہمارے ملک میں قانونی بل پاس کرنے کے لیے لوگوں کو لاپتا کیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد والے آج تک بلوچستان کا مسئلہ سمجھ نہیں سکے، اسلام آباد والے سمجھتے ہیں کہ بلوچوں کو صفہ ہستی سے مٹا دیں گے، ظلم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی ہے اور بلند کرتے رہیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سینیٹر قاسم رونجھو اور سینیٹر نسیمہ احسان کے بیٹے کو بازیاب کروایا جائے، طاقت سے قوموں کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
آغا حسن بلوچ نے کہا کہ لاپتا افراد، ماؤں، بہنوں کی عزت اور اپنے حقوق کے لیے ہمیشہ آواز بلند کرتے رہیں گے، ہم روز اول سے جمہوری طریقے سے جدوجہد کررہے ہیں، طاقت کا استعمال بند کیا جائے اور سینیٹر قاسم رونجھو اور سینیٹر نسیمہ احسان کے بیٹے کو منظر عام پرلایا جائے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سردار اختر مینگل کی طرح بی این پی مینگل کے سینیٹرز اور اراکین اسمبلی بھی اپنے عہدوں سے مستعفی ہوں گے یا نہیں؟
تجزیہ نگاروں کے مطابق اس وقت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اس وقت ایوان میں مضبوط پوزیشن پر نہیں، ایوان بالا میں بی این پی کے 2 سینیٹرز جبکہ صوبائی اسمبلی میں ایک نشست پر بی این پی مینگل کا امیدوار موجود ہیں۔
بی این پی سمیت دیگر قوم پرست سیاسی جماعتوں کی ایوان میں نمائندگی کم ہونے کی ایک بڑی وجہ صوبے میں سیاسی منظرنامہ تبدیل ہونے کی جانب اشارہ کررہا ہے، دراصل صوبے میں ووٹر پارلیمانی نظام سے بے زار نظر آرہے ہیں۔
ایسے میں بلوچ یک جہتی کمیٹی جیسی مختلف تنظمیں اس خلا کو پر کررہی ہیں کیوں کہ یہ جماعتیں صوبے میں غیر اہم ہوتی جارہی ہیں جو قوم پرست سیاسی جماعتوں کی سیاست کو ختم کررہی ہیں۔
سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ موجود صورتحال میں بی این پی مینگل کے سینیٹرز اور بلوچستان رکن اسمبلی اپنے اپنے عہدوں سے مستعفیٰ نہیں ہوں گے گے کیونکہ اپوزیشن کے پاس آئینی ترمیم کے خلاف پہلے ہی ووٹ کم دیکھائی دے رہے ہیں ایسے میں بی این پی کے سینیٹرز اگر مستعفی ہو جاتے ہیں تو اپوزیشن کو بھاری دھچکا لگ سکتا ہے۔