معاشی اعداد و شمار میں استحکام، پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 16 ملین ڈالر سے زیادہ ہوگئے


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے زر مبادلہ کے مجموعی سیال ذخائر 11 اکتوبر 2024ء کو 16,111.3 ملین ڈالر تھے۔
زر مبادلہ ذخائر کی تفصیلات یہ ہیں:
الف۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی تحویل میں زر مبادلہ ذخائر: 11,022.7 ملین ڈالر
ب۔ کمرشل بینکوں کی تحویل میں زرِمبادلہ کے ذخائر: 5,088.6 ملین ڈالر
ج۔ زر مبادلہ کے مجموعی سیال ذخائر: 16,111.3ملین ڈالر
11 اکتوبر 2024ء کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران اسٹیٹ بینک کے ذخائر 215 ملین ڈالر اضافے سے 11,022.7 ملین ڈالر ہو گئے۔
معیشت کی صورتحال میں بہتری
اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال 2024میں کلی معیشت کی صورتحال میں بہتری آئی ، جاری مالی سال کے دوران مہنگائی کادباؤ کم ہوگا۔
سٹیٹ بینک نے کہاہے کہ استحکام کی پالیسیوں ، آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب پیش رفت، بے یقینی میں کمی اور سازگار عالمی معاشی حالات سے مالی سال 2024میں کلی معیشت کی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔
مہنگائی کادباؤ کم ہوگا
زرعی پیداوار میں اضافے نے سال کے دوران قدرے بہتر معاشی نتائج کے حصول میں اپنا کردار ادا کیا، جاری مالی سال کے دوران مہنگائی کادباؤ کم ہوگا۔یہ بات مالی سال 2024 میں ملک کی معاشی کیفیت کے حوالہ سے سٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹ میں کہ کہی گئی ہے۔
حقیقی جی ڈی پی کی بحالی ہوئی
رپورٹ کے مطابق مالی سال 24 کے دوران حقیقی جی ڈی پی میں زراعت کی بدولت معتدل بحالی ہوئی۔ مالی سال 24 میں گندم اور چاول کی ریکارڈ اور کپاس کی پیداوار میں بحالی نے زرعی پیداوار کو بڑھانے میں اہم کردار دا کیا۔
ترسیلات زر اور برآمدات میں مضبوط نمو
رپورٹ میں اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ حقیقی معاشی سرگرمی کی بحالی کے باوجود جاری کھاتوں کا خسارہ مزید کم ہو کر 13 مہینوں کی کم ترین سطح پر آ گیا، کیونکہ ترسیلات زر اور برآمدات میں مضبوط نمو نے درآمدات میں معمولی اضافے کے اثر کو مکمل طور پر زائل کر دیا۔
اس کے ساتھ آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی معاہدہ نے دیگر کثیر طرفہ اور دو طرفہ ذرائع سے رقوم کی آمد کو بڑھانے ، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور زرمبادلہ کی مارکیٹ کے احساسات کو دھیما کرنے میں مدد کی۔
زرمبادلہ کمپنیوں میں اصلاحات
سال کے دوران شرح مبادلہ میں بتدریج اضافے کے ساتھ توقع سے بلند مالیاتی یکجائی مالی سال 24ء میں سرکاری قرض اور جی ڈی پی کے تناسب میں قابل ذکر کمی پر منتج ہوئی۔رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک نے تقریباً پورے مالی سال 24ء میں سخت زری پالیسی اختیار کرکے پالیسی ریٹ 22 فیصد پر برقرار رکھا۔ بینک نے زرمبادلہ اور اجناس کی منڈیوں میں نظم و نسق قائم کرنے کے لیے حکومت کے انتظامی اقدامات کے بعد زرمبادلہ کمپنیوں میں بھی اصلاحات متعارف کروائیں۔ حکومت نے مالیاتی یکجائی جاری رکھی اور 17 سال میں پہلی مرتبہ بنیادی توازن (پرائمری بیلنس) فاضل ہوا۔
مہنگائی میں کمی
رپورٹ کے مطابق اجناس کی عالمی قیمتوں میں کمی کے ساتھ عالمی معاشی سرگرمیوں اور تجارت میں بہتری نے کلیدی معاشی اظہاریوں پر مثبت اثرات مرتب کیے۔ مہنگائی مئی 2023ء کی 38 فیصد کی بلند ترین سطح سے گھٹ کر جون 2024ءمیں 12.6 فیصد کی سطح پر آ گئی۔
دوسری ششماہی
مالی سال 24ء میں اوسط مہنگائی 23.4 فیصد رہی جو مالی سال23ء کی 29.2 فیصد سطح کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ مالی سال 24 کی دوسری ششماہی میں عمومی اور قوری مہنگائی دونوں میں مستقل کمی نے اسٹیٹ بینک کے لیے جون 2024ء میں پالیسی ریٹ 150 بیسس پوائنٹس کم کرکے 20.5 فیصد تک لانے کی گنجائش پیدا کر دی۔
متعدد ساختی رکاوٹیں بدستور حائل ہیں
رپورٹ کے مطابق معاشی استحکام برقرار رکھنے کی راہ میں متعدد ساختی رکاوٹیں بدستور حائل ہیں۔ کم بچتوں کے حالات میں پست سرمایہ کاری، ناسازگار کاروباری ماحول، تحقیق و ترقی کا فقدان، اور کم پیداواریت کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات معاشی ترقی کی ممکنہ صلاحیت کو محدود کررہے ہیں۔
گردشی قرضوں میں اضافہ
توانائی کے شعبے کی کارکردگی میں دیرینہ نقائص کے نتیجے میں گردشی قرضے کی سطح بڑھ چکی ہے۔ اگرچہ حکومت نے قیمتوں میں خاصے ردوبدل کے ذریعے توانائی کے شعبے کے چیلنجوں سے نمٹنے کا آغاز کر دیا ہے تاہم شعبہ جاتی پالیسی اور ضوابطی اصلاحات کو متعارف کر کے ان کوششوں کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ اصلاحات ریاستی ملکیت کے کاروباری اداروں کی کارکردگی میں نقائص کے مسئلے کو حل کر نے کے لیے بھی ضروری ہیں، جو مالیاتی وسائل پر مسلسل بوجھ بنے ہوئے ہیں، جبکہ یہ وسائل ٹیکس تا جی ڈی پی کے پست تناسب کے باعث پہلے ہی محدود ہیں۔
اس تناظر میں رپورٹ میں ‘پاکستان میں سرکاری ملکیت کے کاروباری اداروں (ایس او ایز) کی اصلاحات’ کے موضوع پر ایک خصوصی باب بھی شامل کیا گیا ہے جس میں ملک میں ایس او ای اصلاحات کے تاریخی اور موجودہ تجربات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اس باب میں اصلاحاتی ایجنڈے کی کامیابی کے لیے بہترین بین الاقوامی طریقوں کی بنیاد پر اقدامات بھی تجویز کیے گئے ہیں۔
ان تجاویز میں شعبہ جاتی پالیسی پر ضروری توجہ دینے کے علاوہ حال ہی میں متعارف کرائی گئی کارپوریٹ نظم و نسق کی اصلاحات کے موثر نفاذ، مسابقتی ماحول کی تخلیق اور وسیع سیاسی اتفاق رائے کی مدد سے مؤثر ضابطہ کاری کو یقینی بنانا شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق مالی سال 24کے دوران پاکستان کے کلّی معاشی حالات میں بہتری کا سلسلہ مالی سال 2025میں بھی جاری رہنے کی توقع ہے۔ ستمبر 2024ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پروگرام کی منظوری سے توقع ہے کہ ملک کے بیرونی کھاتے کی پوزیشن مزید مستحکم ہوگی، ملک کی کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری آئے گی اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔
عالمی اقتصادی ماحول سے فائدہ
اس کے ساتھ ساتھ توقع ہے کہ ملک کو سازگار عالمی اقتصادی ماحول سے فائدہ ہوگا، کیونکہ ترقی یافتہ معیشتوں میں مہنگائی کم ہو رہی ہے جبکہ عالمی اقتصادی نمو مستحکم رہنے کا امکان ہے۔
مزید برآں اگرچہ بڑھتی ہوئی جغرافیائی و سیاسی کشیدگی کی وجہ سے اجناس کی عالمی قیمتوں میں اضافے کے خطرات موجود ہیں، تاہم اجناس کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔ یہ عوامل مالی سال2025میں جاری کھاتے کے خسارے کو جی ڈی پی کے 0.0 تا 1.0 فیصد کی حد میں رکھیں گے۔
زرمبادلہ
رپورٹ کے مطابق مالیاتی یکجائی کی کوششوں میں تسلسل اور سخت زری پالیسی کے تاخیری اثرات کی بدولت مالی سال 2025 میں مہنگائی کے دباؤ میں مزید کمی کا امکان ہے۔ حالیہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ مالی سال 2025 میں اوسط مہنگائی ابتدائی تخمینے کی حد 11.5 تا 13.5 فیصد سے نیچے جاسکتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ توقع ہے کہ جاری مالیاتی یکجائی سے بھی مہنگائی کو مزید کم کرنے میں مدد ملے گی۔
قرضوں کی نسبتاً کم لاگت اور بڑے پیمانے کی اشیا سازی (ایل ایس ایم) اور خدمات کے شعبے میں آنیوالی والی بتدریج بہتری مالی سال 25ءمیں حقیقی جی ڈی پی نمو کو 2.5 تا 3.5 فیصد کی حد میں رکھنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔