آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو قومی اسمبلی میں مزید کتنے ووٹ درکار؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)حکومت 26 ویں ترمیم پاس کروانے کا مصمم ارادہ رکھتی ہے اور اب یہ بھی تقریباً واضح ہوچکا ہے کہ قومی اسمبلی میں اس کوشش کو کامیاب بنانے کے لیے اسے کتنے مزید ووٹ درکار ہیں۔
قومی اسمبلی میں ترمیم منظور کروانے کے لیے حکومتی اتحاد کو کل 224 ووٹ درکار ہیں اور موجودہ صورتحال یہ ظاہر کرتی ہے کہ اسے جمعیت علمائے اسلام کے 8 ووٹ مل جانے کے امکانات بھی روشن ہیں۔
اب اگر حکومتی اتحاد کے ووٹس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور دیگر اتحادیوں کے تمام ووٹ ملا کر یہ تعداد 215 بنتی ہے۔ اگر اس میں جے یو آئی کے 8 ارکان کے ووٹ جوڑ لیے جائیں تو پھر حکومت کے غلک میں 223 ووٹ جمع ہوجاتے ہیں۔
لیکن چوں کہ ترمیم کی منظوری کے لیے 2 تہائی یعنی 224 ووٹ درکار ہیں تو اس طرح حکومت کے پاس ایک ووٹ کم ہے جس کی وجہ سے اس کی نظریں اب قومی اسمبلی میں موجود تگڑی اپوزیشن پر ہیں جن کے کل 91 ووٹ بنتے ہیں۔
یعنی جے یو آئی ارکان کی حمایت کے بعد بھی حکومت کو آئینی ترمیم کے لیے مزید ایک ووٹ درکار ہوگا۔
اپوزیشن میں 8 آزاد ارکان بھی موجود ہیں مگر ان آزاد ارکان میں پی ٹی آئی کی قیادت بھی شامل ہے جو سنی اتحاد کونسل میں شامل نہیں ہوئے تھے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن کا کون سا رکن حکومت کی جھولی میں اپنا ووٹ ڈال کر اس ترمیم کو مںظور کروانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
آئینی عدالت نہیں اب آئینی بینچ بنے گا
26 ویں آئینی ترمیم پر پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں آئینی بینچ کی تشکیل پر اتفاق ہوگیا ہے کیوں کہ کمیٹی میں پیش حکومتی ڈرافٹ میں آئینی عدالت کا ذکر نہیں ہے۔
سید خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمانی خصوصی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں حکومت کی جانب سے آئینی ترمیم کا ڈرافٹ پیش کیا گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پارلیمانی خصوصی کمیٹی میں پیش حکومتی ڈرافٹ میں آئینی عدالت کا ذکر نہیں ہے لہٰذا اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب کوئی علیحدہ آئینی عدالت نہیں بننے جارہی بلکہ عدالت عظمیٰ میں ایک آئینی بینچ بنادیا جائے گا۔ یہ وہ فیصلہ ہے جس پر جے یو آئی اور پاکستان تحریک انصاف دونوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔
حکومت کے آئینی عدالت کے قیام کے ارادے سے پیچھے ہٹنے کا مطلب یہ ہے کہ اب آئینی بینچ کی تقرری جوڈیشل کمیشن کرے گا۔ تاہم ڈرافٹ میں جوڈیشل کمیشن کے عمل میں بھی ردوبدل کرنےکی تجویز موجود ہے۔
ڈرافٹ میں چیف جسٹس کی تقرری کے معاملے پر 3 سینیئرججز میں سے کسی ایک کی تقرری کی تجویز ہے اور یہ نام پارلیمانی کمیٹی تجویز کرے گی۔
اطلاعات ہیں کہ پارلیمانی کمیٹی کی ہیئت کو بھی بدلا جاسکتا ہے اور یہ کمیٹی اپنی تجویز وزیراعظم کو بھیجے گی اور پھر صدر کے دستخط کے بعد نوٹیفائی کیا جاسکے گا۔
جوڈیشل کمیشن میں 6 ججز شامل کرنے کی تجویز ہے جبکہ اس میں وزیرقانون، اٹارنی جنرل، ایک سپریم کورٹ کا ریٹائرجج، کچھ وکلا، ایم این اے اور سینیٹر کو شامل کرنے کی بھی تجویز ہے۔