خیبرپختونخوا: تحریک انصاف کا پولیس کو دیا اختیار واپس لینے کا فیصلہ، نقصانات و فوائد


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)خیبر پختونخوا میں برسر اقتدار پاکستان تحریک انصاف نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں صوبائی پولیس کو غیر سیاسی اور آزاد کرنے کے لیے دیے گئے اختیارات میں کمی کرکے تقرری اور تبادلے کا اختیار وزیراعلیٰ کے سپرد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
صوبائی کابینہ نے پولیس ایکٹ 2017 میں ترامیم کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت پولیس چیف سے اعلیٰ افسران کی تقرری اور تبادلوں کا اختیار واپس لے کر وزیر اعلیٰ کو دیا جا رہا ہے۔
حکومت نے پولیس ایکٹ 2017 میں ترامیم کے ذریعے پولیس اختیارات کو کم کرنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اس سے محکمہ پولیس پر چیک اینڈ بیلنس اور شفافیت کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔
پولیس ایکٹ میں کیا ترامیم ہورہی ہیں؟
صوبائی حکومت کے مطابق خیبرپختونخوا پولیس میں احتساب کے عمل کو مزید شفاف بنانے اور پولیس پر مظبوط چیک اینڈ بیلنس کے لیے پولیس ایکٹ 2017 میں ترامیم کی منظوری گزشتہ ہفتے کابینہ نے دی تھی۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ پولیس ایکٹ میں ترامیم پر پولیس افسران نے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور وزیرا علیٰ کی یقین دہانی پر پولیس حکام نے ترامیم ڈرافٹ تیار کی تھیں لیکن صوبائی حکومت نے اپنی ہی ترامیم کو اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔
وی نیوز کو ملنے والے پولیس ایکٹ ترامیم کے ڈرافٹ کے مطابق پولیس کے اعلیٰ افسران کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کا اختیار آئی جی سے لے کر وزیراعلیٰ کے حوالے کردیا جائے گا جبکہ پولیس چیف وزیر اعلیٰ کی ہدایت کی روشنی میں پالیسی کے مطابق انتظامی و آپریشنل اختیارات استعمال کر سکیں گے۔ مزید برآں عوامی شکایات کے ازالے کے لیے ایک شفاف اور غیرجانبدارانہ نظام یا اتھارٹی قائم کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔
سنہ 2017 میں پولیس کو دیے گئے اختیارات کیا تھے؟
سال 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف پہلی بار خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو اس وقت کے پارٹی چئیرمین عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر پولیس کو غیر سیاسی کرنے اور با اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا اور پھر ناصر درانی کو آئی جی کے پی لگایا گیا اور پولیس ریفارمز پر کام شروع ہوا اور اخر کار پولیس ایکٹ 2017 اسمبلی سے پاس ہوا۔
اس ایکٹ کے ذریعے پولیس کو مکمل با اختیار بنایا گیا تھا اور سیاسی مداخلت کو ختم کرنے کے لیے تبادلوں کے مکمل اختیارات پولیس چیف کو دے دیے گئے تھے جبکہ پولیس پر چیک اینڈ بیلنس کے لیے کمیشن بنانے کی منظوری ہوئی تھی جو تاحال غیر فعال ہے۔
پولیس افسران ناراض، وزیر اعلیٰ اور اسپیکر اسمبلی سے ملاقات
پولیس ایکٹ میں ترامیم کے معاملے پر پولیس افسران میدان میں آگئے ہیں اور انہوں نے کئی شقوں پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اس حوالے سے پولیس افسران نے ایک میٹنگ کی جس کے بعد وزیر اعلیٰ اور اسپیکر اسمبلی سے ملاقات کرکے انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ اس پر وزیر اعلیٰ نے انہیں ہدایت کی کہ وہ اپنی تجاویز تحریری شکل میں جمع کرادیں تاکہ اس پر غور کیا جاسکے۔
پشاور میں انگریزی روزنامہ ڈان سے وابستہ سینیئر صحافی منظور علی سمجھتے ہیں کہ پولیس افسران کا ترامیم پر اعتراض بلاجواز ہے۔
منظور علی نے بتایا کہ ترامیم کے ذریعے بہتری لانے کے لیے اقدامات کیے جاسکتے ہیں اور اگر وزیراعلی خیبر پختونخوا پولیس پر براہ راست چیک اینڈ بیلنس رکھنا چاہتے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
منظور علی نے سوال اٹھایا کہ پولیس کو جو اختیارات دیے گئے تھے کیا ان سے پولیس فورس میں بہتری آئی اور احتساب کا عمل بہتر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں پولیس افسران نے ان اختیارات کو درست استعمال نہیں کیا اور کوئی منظم چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہ ہونے کے سبب پولیس آلہ کار بن کر رہ گئی اور اس پر اغوا برائے تاوان کے سنگین الزامات بھی لگتے رہے‘۔
انہوں نے کہا کہ پولیس ایکٹ 2017 میں پولیس پر چیک کے لیے سیفٹی کمیشن اور مرحلہ وار ڈویژنل سطح پر بھی کمیشن بنائے جانے تھے جس پر اب تک عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
منظور علی نے سوال اٹھایا کہ سنہ 2017 میں پولیس کو مکمل اختیار دیے گئے آپریشنل اور مالی اختیارات ملنے کے بعد آئی جیز نے عوام کو کیا دیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کی جانب سے عوامی شکایات کے ازالے کے جو کمیشن بنائے جانے تھے وہ نہیں بنے اور پولیس و حکومت دونوں کی دلچسپی نہیں رہی جس سے پولیس بے لگام ہوگئی۔
کرائم رپورٹر زائد امداد کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی خود اپنی ہی حکومت کی جانب سے دیا گیا اختیار اور کام کی آزادی پولیس سے واپس لے رہی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت پولیس پر کنڑول چاہتی ہے۔
زائد امداد کے مطابق تبادلوں کا اختیار حکومت کو ملنے سے آپریشن کا عمل اور افسران کی کارکردگی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’اب افسران ذاتی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر بھی تعینات ہوں گے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ترامیم کے بعد آئی جی بے اختیار اور بیوروکیسی کے ماتحت ہوجائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ان ترامیم کے ذریعے پولیس محکمہ ڈاکخانہ بن کر رہ جائے گا۔ آئی جی صرف چیف سیکریٹری آفس سے سمری کو آگے کرے گا خود کوئی فیصلہ نہیں کرسکے گا۔
سینیئر رپورٹر سجاد حیدر مرزا کے مطابق صوبائی حکومت 9 مئی کے واقعات پر پولیس اختیارات کو محدود کرنے پر کام کر رہی تھی جبکہ علی امین گنڈاپور نے وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد ہی آئی جی پولیس کو اپنے کارکنان کے خلاف ایف آئی آر ختم کرنے کے احکامات دیے تھے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں آئی جی وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے جسے صوبائی حکومت کنٹرول نہیں کر سکتی لیکن اب ترامیم کے ذریعے صوبائی حکومت آئی جی کے ماتحت تمام افسران کو تقرری اور تبادلوں کے ذریعے کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جو پی ٹی آئی کی تبدیلی کے نظریے اور پولیس پر سیاسی دباؤ ختم کرنے کے عزم کے منافی ہے۔
پولیس پر چیک رکھنا چاہتے ہیں، وزیر قانون
وزیر قانون خیبر پختونخوا آفتاب عالم کا مؤقف ہے کہ حکومت پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور عوامی شکایات کے ازالے کے لیے ایکٹ میں ترمیم کر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ترامیم کے بعد صوبائی حکومت براہ راست پولیس پر چیک رکھ سکے گی تاکہ وہ عوامی شکایات پر ایکشن لے سکے اور یہ جمہوری حکومت کا حق ہے۔