لاہور کے تعلیمی اداروں میں ہراسگی؛ ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں کمیٹی بنانے کی ہدایت


لاہور(قدرت روزنامہ) تعلیمی اداروں میں حالیہ واقعات سے متعلق لاہور ہائیکورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں کمیٹی بنانے کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے ہدایت کی ڈی جی ایف آئی اے پنجاب یونیورسٹی خودکشی، پنجاب کالج زیادتی اور لاہور کالج ہراسگی شکایت کیس کی تحقیقات کریں گے۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ یہ کالج انتظامیہ کی ناکامی ہے، لڑکی کا بیان لیا جائے اور اگر یہ علم یوا کہ لڑکی کا بیان لینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تو پھر نتائج کے لیے تیار رہیں۔ اعلیٰ سطح تحقیقات کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ یہ دیکھنا ہے کہ آخر یہ بندہ کون ہے کہاں سے آیا۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ کیا حکومت پنجاب نے اس حوالے سے کچھ کیا؟ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ انسٹاگرام پر ایک پوسٹ اپلوڈ ہوئی کہ نجی کالج میں ایک طالبہ سے مبینہ زیادتی کا واقعہ ہوا ہے، علاقے کے اے ایس پی کالج پرنسپل سے ملے اور سی سی ٹی وی چیک کی، ہر بچہ کہہ رہا تھا کہ زیادتی ہوئی ہے مگر کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ دوسرے کیمپس کے بچے بھی اس کیمپس پہنچ گئے اور ایک منتظم طریقے سے یہ سب کچھ ہوا، جب توڑ پھوڑ ہوئی تو وزیر اعلیٰ نے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی، پیر کے دن تک کوئی زیادتی کا شکار سامنے نہیں آیا لیکن افواہ یہ ہے کہ مبینہ زیادتی 9 یا 10 اکتوبر کو ہوئی، 2اکتوبر کو ایک بچی کا لاہور جنرل اسپتال میں علاج ہوا، 4اکتوبر کو یہ بچی ایک نجی اسپتال میں جاتی ہے اور 5 دن آئی سی یو میں رہی، صرف اس بنا پر کہ بچی کالج نہیں آ رہی اسے زیادتی کی افواہ سے جوڑ دیا گیا ہے، اگر آپ کہیں گی تو میں آپ کی اس بچی سے ملاقات کروا سکتا ہوں۔
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ایک اور صاحب نے جو خود کو وکیل کہتے ہیں ان بچیوں کا حوالے دیتے ہوئے ایک ویڈیو بنائی، اس وکیل کو مجسٹریٹ کی جانب سے مقدمے سے بری کر دیا گیا، مقدمے سے بری کرنے کا نیا رواج چل پڑا ہے، ہم جسے گرفتار کرتے ہیں وہ اگلے دن ہیرو بن جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ ایک منظم طریقے سے ہوا مگر جب یہ ہوا تو موقع پرستوں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ عدالت پیش ہو کر آئی جی پنجاب نے بتایا کہ پولیس نے 700 سے زائد اکاؤنٹس کی شناخت کی، انگلینڈ میں بھی اپلوڈ روکنے کی طاقت نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہاں کی بات مت کریں۔
آئی جی پنجاب نے بتایا کہ ہم نے وزارت داخلہ سے بات کی اور انہیں مراسلے لکھے، 700 سے زائد اکاؤنٹس پر یہ ویڈیوز چل رہی تھیں، ان کو بند کرنے کا اختیار پی ٹی اے کے پاس ہے، ہمارے پاس جتنی اتھارٹی ہے اس پر کام کرنا شروع کر دیا تھا، ہم نے کچھ اکاؤنٹس کی شناخت کی لیکن وہ ابھی تک ڈیلیٹ نہیں ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر ارادہ ہو تو سارے کام ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی میں ہراسگی کی کتنی شکایات ہیں؟ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ 14 اکتوبر کو ایک بچی کی ہراسگی کی درخواست دی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس شخص کے خلاف کتنی شکایات ہیں؟ رجسٹرار لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی نے بتایا کہ اس شخص کے حوالے سے ایک ہی شکایت ہوئی ہے اور ہم نے مذکورہ شخص کو معطل کر دیا ہے، ہماری ہراسمنٹ کمیٹی بہت عمدہ طریقے سے کام کر رہی ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے سوال کیا کہ اس شخص کے پاس طالبہ کا نمبر کیسے آیا؟ رجسٹرار لاہور کالج نے جواب دیا کہ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی یہ ہے کہ وہ نمبر مزکورہ شخص کا نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ سکتی ہیں، کوئی ڈاکومنٹ دیں۔ رجسٹرار لاہور کالج نے کہا کہ ہم اس حوالے سے رپورٹ جمع کروائیں گے۔
آئی جی پنجاب سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ویڈیوز کو روکنے کا کام آدھے گھنٹے کا تھا۔ آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہمارے پاس اس حوالے سے کوئی اتھارٹی نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کسی اتھاڑی کے پاس گئے؟ آئی جی پنجاب نے بتایا کہ ہم پی ٹی اے کے پاس گئے اور یہ ویڈیوز 13، 14 اکتوبر کو وائرل ہونا شروع ہوئیں، سی ٹی ڈی نے 114 اکاؤنٹس کی شناخت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو فوراً ایف آئی اے سے رابطہ کرنا چاہیے تھا، آئی جی نے جواب دیا کہ ہم نے فوراً ایف آئی اے سے رابطہ کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس بہت اہم ہے اس پر فل بینچ بنا رہے ہیں، فل بینچ منگل سے کیس کی سماعت کرے گا۔ سرکاری وکیل نے استدعا کی کہ ہمیں پیر کا دن دے دیں تاکہ مکمل رپورٹ پیش کی جا سکے۔
واضح رہے کہ عدالت نے آئی جی پنجاب، ایڈووکیٹ جنرل اور لاہور کالج فار وومن یونیورسٹی کی رجسٹرار کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔