خوشخبری دیتا ہوں، میں شہید بی بی کا وعدہ پورا کرنے جا رہا ہوں، بلاول بھٹو کا حیدرآباد میں جلسہ عام سے خطاب


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ شہید بے نظیر بھٹو ایک نظریے، مشن اور منشور کے ساتھ پاکستان آئی تھیں، شہید بی بی کے مشن میں وفاقی عدالت کا قیام بھی شامل تھا۔
جمعہ کو حیدر آباد میں پیپلز پارٹی کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ شہید بی بی سے زیادہ کوئی بھی عدالتی نظام کی بہتری کی بات نہیں کرتا تھا، شہید بی بی کی خواہش تھی عدالتوں سے بھی ون یونٹ کا خاتمہ ہو، آج خوشخبری دیتا ہوں کہ شہید بی بی کے وفاقی عدالت کے قیام کے وعدے کو پورا کرنے جا رہا ہوں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم آج 18 اکتوبر 2007 کو یاد کر رہے ہیں جب بے نظیر بھٹو پاکستان واپس آئی تھیں، وہ ایک مشن، نظریہ اور منشور کے ساتھ واپس آئی تھیں، وہ اگر اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر کراچی پہنچی تھیں تو وہ اس لیے پہنچی تھیں کہ وہ ایک آمر کے راج کو ختم کر کے عوامی راج قائم کرنا چاہتی تھیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ شہید بے نظیر بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کا عام آدمی کے لیے روٹی، کپڑا، مکان کا وعدہ پورا کرنے آئی تھیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کے منشور میں غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کا مقابلہ کرنا شامل تھا، ان کے منشور میں’ قائد عوام‘ کا دیے ہوئے آئین کو بحال کرنا تھا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو حقوق دلائے، اسی جماعت نے سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبر پختونخوا کو ان کے حقوق دلائے، اسی منشور میں اسی چارٹر آف ڈیموکریسی میں، اسی الیکشن مہم میں شہید بی بی کا ایک اور مطالبہ تھا کہ اس نے وفاقی عدالت بنانی تھی، اس وفاقی عدالت میں تمام صوبوں کی نمائندگی ہونی تھی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس وفاقی عدالت میں پاکستان کے آئین کا تحفظ کرنا تھا، عوام اور صوبوں کے حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے پارلیمان سے ون یونٹ کا تصور اور سوچ سینیٹ آف پاکستان بنا کرتوڑ دیا تھا، شہید بے نظیر بھٹو کا وفاقی عدالت کا مقصد بھی عدالت سے ون یونٹ کو توڑنا تھا، شہید بی بی کا یہ فلسفہ، یہ نظریہ، یہ مطالبہ اس لیے سامنے آیا کہ جتنا شہید بے نظیر بھٹو ان عدالتوں کا چہرہ جانتی تھیں اور کوئی نہیں جانتا تھا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ شہید بے نظیر بھٹو جانتی تھیں کہ پاکستان بننے سے لے کر آج تک اس عدالت نے جس نے ہمارے آئین کا تحفظ کرنا تھا، ایک عامر کا راستہ روکنا تھا، اسی عدالت نے عامر کے راج کو ربڑ اسٹمپ کیا، اسی عدالت نے عامر کو غیر آئینی اجازت دی کہ وہ آئین میں ترمیم لے آئے۔
انہوں نے کہا کہ انہی عدالتوں اور ججز نے ہمیشہ عامروں کا ساتھ دیا جمہوریت اور آئین کا ساتھ نہیں دیا، اسی لیے بے نظیر کا عزم تھا کہ وہ وفاقی عدالت بنائیں گی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن کو یہ خوشخبری سنانا چاہتا ہوں کہ آپ کو بہت انتظار کرنا پڑا، میں نے 2008 کو وعدہ کیا تھا جو میں 2013 تک پورا نہیں کر سکا لیکن آج میں وزیر اعظم نہیں ہوں، وفاقی کابینہ کا حصہ بھی نہیں ہوں لیکن آج یہ اعلان کر رہا ہوں کہ میں شہید بی بی کا وفاقی عدالت کے قیام کا وعدہ پورا کرنے جا رہا ہوں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ جو وفاقی عدالت ہے یہ ون یونٹ ختم کرنے کا مطالبہ ہے، پاکستان کے عوام اس مطالبے کے ساتھ ہے، ان سب کا مطالبہ ہے کہ ’ون یونٹ نہ کھپے‘ نہ کھپے۔ یہ مطالبہ نہ صرف شہید بے نظیر بھٹو کا ہے بلکہ یہ مطالبہ تو قائد اعظم محمد علی جناح کا تھا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان بننے سے پہلے 1930 میں خود کہا تھا کہ ’کسی ایک عدالت میں اتنی طاقت نہیں ہونی چاہیے، ایک عدالت عوام کو کریمنل اور دیوانی کیسز میں انصاف دے اور دوسری عدالت عوام کو آئینی اور وفاقی ایشوز پر انصاف دے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ مطالبہ جسٹس دراب پٹیل کا تھا، وہ عدالت کا اصل منصف تھا وہ پی سی او جج نہیں آئین کا تحفظ کرنے والا تھا، وہ قائد ایوان ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس کی عدالت میں بیٹھا ہوا تھا، جنہوں نے دلیرانہ طور پر کہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو بے قصور ہے، یہ ظلم ہے زیادتی ہے۔
جسٹس دراب پٹیل نے بھی یہی مطالبہ کیا تھا کہ وفاقی عدالت کا قیام ہونا چاہیے، ہم اور تمام سیاسی جماعتیں مل کر وفاقی عدالت بنا کر دکھائیں گے، جب تک عدالت ملک کے آئین و قانون کے مطابق کام نہیں کریں گی، عوام کو انصاف نہیں مل سکتا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمارا مطالبہ برابری کا ہے، آپ کو ہمارا مطالبہ ماننا پڑے گا اور عدالت کا قیام کرنا پڑے گا ۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم اس نتیجے پر تقریباً پہنچ چکے ہیں کہ ہم وفاقی عدالت کا خواب پورا کر سکتے ہیں، یہ سیاسی جماعتوں کا امتحان ہے کہ ہم یہ آئین سازی18 ویں ترمیم کی طرح ہو، مکمل اتفاق رائے سے ہو،2 مہینوں سے مولانا فضل الرحمان اور باقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کر رہا ہوں کہ شہید بے نظیر بھٹو اور جیالوں کا نامکمل مشن پورا کر سکوں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم سے جتنا ہو سکا، ہم نے کر لیا، انہوں نے کہا کہ بینچ ہونا چاہیے، ہم نے کہا کہ بینچ بنائیں لیکن اس میں برابر نمائندگی ہو، انہوں نے کہا کہ اس میں جسٹس قاضی فائز عیٰسی نہیں ہونا چاہیے، یہ وہ بہادر جسٹس قاضی فائز عیٰسی ہیں جنہوں نے فیض آباد دھرنے کا وہ فیصلہ سنایا جو پاکستان کی تاریخ کا کوئی جج نہیں سنا سکتا تھا۔
یہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہے جس نے کہا کہ مشرف غدار ہے، ایسا کوئی اور جسٹس نہیں کر سکتا تھا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس سے قبل تمام چیف جسٹسز ڈرتے تھے، بزدل تھے وہ یہ بھی نہیں کر سکتے تھے کہ جو عامر تھا اس کو عامر کہہ سکیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہم سلام پیش کرتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مجھ سے جو ہو سکا میں نے کیا میں چاہتا ہوں آج ہی یہ آئین سازی ہولیکن میں یہ کام اکیلا نہیں کر سکتا میں یہ آئین سازی تمام سیاسی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام، ن لیگ اور دیگر جماعتوں کو ساتھ لے کر کرنا چاہتا ہوں۔
میں پارلیمان میں بیٹھی سب جماعتوں کے ساتھ مل کر یہ آئین سازی کرنا چاہتا ہوں، ہم نے خدشات کے باوجود درمیانی راستہ نکالا، پی ٹی آئی کا مطالبہ تھا کہ وہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کے ساتھ مشاورت کرنا چاہتے ہیں، میں نے اس کا بھی بندوبست کر دیا تھایہ معلوم نہیں کہ وہ گئے ہیں یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے سامنے 2 راستے ہیں کہ حکومت بل لے آئے اور یہ ترمیم مسلم لیگ ن کی حکومت کی مرضی سے ہو، نمبرز جو بھی ہوں یا پھرتمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے ترامیم کی جائیں، پیپلز پارٹی کے ڈرافٹ پر مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام نے بھی اتفاق کر لیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف چاہتی تھی کہ جسٹس قاضی فائز عیٰسی نہ ہوں، وہ بھی اب نہیں ہوں گے، ہمارے پاس شاہد کل تک کا وقت ہے، میری تمام جماعتوں سے درخواست ہے کہ وہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار اتفاق رائے سے آئین سازی کی جانب بڑھیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ہوش کے ناخن لیں، ہر طرح کے سمجھوتوں کے بعد اپوزیشن ساتھ نہیں دے گی تو مجبوراً قانون سازی کرنا ہو گی۔ آئینی ترمیم کا اپنا مسودہ قومی اسمبلی میں خود پیش کروں گا۔ حکومت کے ساتھ مل کر دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم منظور کروا کر دکھاؤں گا۔