26 ویں آئینی ترمیم سے پارلیمان کی بالا دستی کیسے بحال ہوگی؟

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)حکومت اور اتحادیوں نے انتہائی برد باری، تحمُّل اور بھرپور مشاورت کے ساتھ آخر کار 26 ویں آئینی ترمیم کابینہ سے پاس کروا کر اب سینیٹ اور قومی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے پاس کروانے کے لیے نمبرز پورے کر لیے ہیں، جو کسی بھی وقت سینیٹ اور قومی اسمبلی سے پاس کروا لیے جائیں گے- یہ حکومتی اتحاد کی عدلیہ پر پارلیمانی بالا دستی قائم کرنے کا ایک تاریخی آئینی فیصلہ ہے- چند اہم ترین فیصلے جو اس آئینی مسودہ میں شامل ہیں اور جن سے پاکستان کے عدالتی نظام میں نمایاں بہتری آئے گی وہ یہ ہیں: اسپیشل پارلیمانی کمیٹی ۱- چیف جسٹس کی تقرری کے لئے بجائے سینئرموسٹ جج کی تعیناتی کے پرانے طریقہ کار کے بجائے اب ایک 12 رکنی اسپیشل پارلیمانی کمیٹی 3 سینئرموسٹ ججز کے ناموں میں سے ایک کا انتخاب چیف جسٹس کے طور پر کریگی جس کی حتمی منظوری وزیر اعظم اور صدر دیں گے- پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی ہوگی . اس کلیدی عمل سے عدلیہ کی خود ہی سینئر موسٹ جج کو چیف جسٹس بنانے کی اجارہ داری ختم ہو گئی ہے .

ججز کا تقرر کمیشن کرے گا ۲- سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کے طریقہ کار کو بھی پارلیمان کے زیر اثر لایا گیا ہے جس میں سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر کمیشن کرے گا . چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن میں چار سینیئر ترین ججز شامل ہوں گے . وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے . کم سے کم 15 سال تجربے کا حامل پاکستان بار کونسل کا نامزد کردہ وکیل 2 سال کے لیے کمیشن کا رکن ہوگا . 2 ارکان قومی اسمبلی اور 2 ارکان سینٹ کمیشن کا حصہ ہوں گے . سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت کی حامل خاتون یا غیر مسلم کو بھی 2 سال کے لیے کمیشن کا رکن بنایا جائے گا . ججز کی تعداد کا تعین ۳- اِسی طرح مسودے میں آئینی بینچ کی تشکیل شامل ہے- جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تعین کرے گا . آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے – آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا- آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے . آئینی بینچ کم سے کم 5 ججز پر مشتمل ہوگا . آئینی بینچز کے ججز کا تقرر تین سینیئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی- اس اہم ترمیم سے عدلیہ کی کارگردگی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا کیونکہ آئینی بینچ صرف آئینی معاملات کو سنے گا جبکہ باقی عوام سے متعلق کیسز سپریم کورٹ معمول کے مطابق سنتی رہے گی اس سے عدلیہ کی حکومتی معملات میں مداحلت کا راستہ بھی بند ہو جائے گا . کوئی اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکتی ۴- اِسی طرح وزیراعظم یا کابینہ کی جانب سے صدر مملکت کو بھجوائی گئی ایڈوائس پر کوئی عدالت، ٹریبیونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکتی، اس سے عدلیہ کا حکومت کے انتظامی امور میں عمل دخل ختم ہو جائے گا اور حکومت پوری آزادی کے ساتھ اپنی گورننس اور کارکردگی پر توجہ دے سکے گی . ججوں کی کارکردگی کا طریقہ کار ۵- ججوں کی کارکردگی کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے جس میں کمیشن ہائی کورٹ کے ججز کی کارکردگی کا جائزہ لے گا اور اگر کوئی جج اپنی کارکردگی بہتر نہیں کرتا تو اسکا کیس جوڈیشل کونسل کو بھیجا جا سکے گا . پاکستانی شہریت لازمی ۶- تمام سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ ججوں کی پاکستانی شہریت لازمی ہے اس کے علاوہ انکا وکالت کا وسیع تجربہ، اور لوئر کورٹ میں جج ہونے کا تجربہ بھی لازمی شرط شامل ہے . غرض یہ کے پاکستانی آئینی اور عدالتی تاریخ میں 26ویں آئینی ترمیم ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، جس سے پاکستان میں پارلیمان کی بالا دستی اور عدلیہ کی کارگردگی یقینا بہت بہتر ہوگی . .

متعلقہ خبریں