بلاول بھٹو کا آئینی ترامیم کے لیے کردار، پاکستان کی روایتی سیاست یا سیاسی چال؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری محور گفتگو ہیں خاص طور پر حکومتی ایوانوں میں بلاول بھٹو کے گن مسلم لیگ ن بھی گا رہی ہے کیوں کہ وہی مولانا تھے جن کے سامنے مسلم لیگ ن نے گھٹنے ٹیک دیے تھے لیکن بلاول بھٹو زرداری نے آصف علی زرداری کی لیگیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنا کام نکال لیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بلاول کے اس کردار کا مستقبل میں ان کی سیاست پر کیا اثر ہوگا؟
اس حوالے سے سینئیر صحافی و تجزیہ کار اشرف خان نے وی نیوز کو بتایا کہ یہ جو آئینی ترامیم کے حوالے سے معاملہ ہوا ہے یہ ہماری روایتی سیاست کا تسلسل ہے یہ سب جال سازی اور ہیرا پھیری کا ایک شاہکار ہے جس کی مدد سے آئینی ترامیم کروا لی گئی ہیں۔
اشرف خان کہتے ہیں کہ یقیناً اس ترمیم کی اہمیت ہوگی اور پارلیمنٹیرینز اس کو بہتر سمجھتے ہوں گے لیکن یہ عوام کے فلاح و بہبود میں ہے یا عوام کے فائدے میں؟ یہ سمجھ سے بالاتر ہے، انکا مزید کہنا ہے کہ جن جن سیاسی جماعتوں نے اس میں اپنا کردار ادا کیا ہے وہ عوام کے بجائے کسی اور طاقت کے لیے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کے کردار کے حوالے سے بتایا کہ اس وقت بلاول بھٹو نے بھی وہ چیزیں شروع کردی ہیں جو پاکستان کی سیاست میں ہوتا چلا آرہا ہے یعنی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کیسے چلنا ہے یا اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کے لیے کیسے کام کرنا ہے، انکا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ بلاول ان چیزوں کو سیکھ رہا ہے۔
اشرف خان کے مطابق بلاول کو یہ کام آصف علی زرداری سے ورثے میں ملا ہے یہ ایک روایتی اور فرسودہ سیاست کا تسلسل ہے جو آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ بلاول کی سیاست کو اگر دیکھا جائے گا تو ایسا دیکھا جائے گا کہ وہ پاکستان کی روایتی اور فرسودہ سیاست کو آگے بڑھانے اپنا کردار ادا کر رہے تھے اور وہ بے نظیر بھٹو کے بجائے آصف علی زرداری کی لیگیسی کے ساتھ چل رہے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے کوشش کی کہ موجودہ حکومت بھی برقرار رہے اور ان کے والد آصف علی زرداری کی صدارت کو بھی کوئی نقصان نا پہنچے اور یہ اہداف انہوں نے بخوبی محنت کرکے پورے کیے، مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ملاقات اس کی ڈرافٹنگ تیار کرنا تو اس سب کا کریڈٹ بلاول بھٹو زرداری کو جاتا ہے۔
انکا مزید کہنا تھا کہ اس سے قبل گزشتہ ماہ پاکستان مسلم لیگ ن نے جو مولانا فضل الرحمان کے ساتھ جو کوشش کی تھی وہ ناکام ہو گئی تھی ان کے سارے وزیر ناکام ہو چکے تھے اور جس کے نتیجہ میں اجلاس ملتوی کرنا پڑا تھا جو دوبارہ بلاول بھٹو کی وجہ سے شروع ہوا انہوں نے کوشش کی اور اس میں انکی شخصیت نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے جو اس سے قبل اس طرح کبھی نہیں آئی۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا تھا کہ دیکھیں اس صورت حال میں یہ تو واضح ہو چکا کہ بلاول بھٹو مسائل کو حل کر سکتے ہیں، مذاکرات کر سکتے ہیں، مخالف رہنماؤں کو منا سکتے ہیں اور یہ سب باتیں ان کے فائدے میں جا رہی ہیں اور مستقبل میں ان کی شخصیت میں مثبت اثرات مرتب کرے گی۔