امریکی سینیٹرز کے بعد برطانوی ارکان پارلیمنٹ بھی عمران خان کی رہائی کے لیے متحرک


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)امریکی سینیٹرز کے بعد برطانیہ کے 20 ارکان پارلیمنٹ نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حکومت پاکستان سے رابطہ کرے اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی اڈیالہ جیل سے فوری رہائی کا مطالبہ کرے۔
برطانیہ کے 20 ارکان پارلیمنٹ نے اپنے سیکریٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی کے نام ایک خط لکھا ہے، جس میں عمران خان کی رہائی کے لیے حکومت پاکستان سے بات چیت کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ خط لیورپول ریور سائیڈ کے رکن پارلیمنٹ کم جانسن نے عمران خان کے مشیر برائے بین الاقوامی امور زلفی بخاری کی درخواست پر لکھا ہے اور اس پر تمام جماعتوں کے کامنز اور لارڈز دونوں کے ارکان کے دستخط ہیں۔
خط پر دستخط کرنے والوں میں کم جانسن، پالا بارکر، اپسانا بیگم، لیام بائرن، روزی ڈوفیلڈ، گل فرنس، پالٹ ہیملٹن، پیٹر لیمب، اینڈی میک ڈونلڈ، ابتسام محمد، بیل ریبیرو ایڈی، زارا سلطانہ، اسٹیو ودرڈن، نادیہ وٹوم، بیرونس جون بیک ویل، بیرونس کرسٹین بلور، لارڈ پیٹر ہین، لارڈ جان ہینڈی اور لارڈ ٹوڈوفل شامل ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ‘ہمیں پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی مسلسل نظر بندی کے بارے میں گہری تشویش ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے کہ عمران خان کو 2023 میں جیل بھیج دیا گیا تھا جس کی اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے من مانی حراست نے بھی مذمت کی تھی۔
برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے مزید لکھا کہ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے بھی کہا تھا کہ عمران خان کی حراست کی کوئی قانونی بنیاد نہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد انہیں سیاسی عہدے کے لیے انتخاب لڑنے سے نااہل قرار دینا تھا۔ لہٰذا شروع سے ہی ان پر مقدمہ قانون کے مطابق نہیں تھا اور مبینہ طور پر اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
ڈیوڈ لیمی کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ’ عمران خان کی جاری حراست ملک میں جمہوریت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ درحقیقت یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ ان کی قسمت کا فیصلہ ممکنہ طور پر ایک فوجی عدالت کرے گی، جو ایک تشویش ناک اور مکمل طور پر غیر قانونی اقدام کی نمائندگی کرے گی۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ عمران خان کے معاملے کا حالیہ جائزہ لینے کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی کہا ہے کہ ‘عمران خان کو حراست میں لے کر انہیں تمام سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھنے کے لیے قانونی نظام کو ہتھیار بنانے کا ایک طریقہ کار اپنایا گیا ہے‘۔
خط میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ کم از کم 3 ٹرائلز میں عمران خان کو اپنے دفاع کے لیے مناسب وقت اور سہولیات نہیں دی گئیں۔ یہ واضح ہو گیا ہے کہ جیل میں بند پی ٹی آئی کے بانی کے خلاف مقدمات کی تعداد کو بڑھانے کا مقصد ’ حزب اختلاف کے رہنماؤں کو ڈرانے، ہراساں کرنے اور نشانہ بنانا ہے جو کہ بقول ارکان پارلیمنٹ پاکستان میں انصاف کے نظام کے غلط استعمال کا ثبوت اور عدلیہ کی آزادی کی خلاف ورزی ہے‘۔
خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ حال ہی میں منظور ہونے والی 26 ویں آئینی ترمیم سیاسی جماعتوں پر پابندی یا وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے متعلق مقدمات کو نمٹانے جیسے اختیارات سپریم کورٹ سے چھین لیے جائیں گے اور یہ ملک کے آئین میں درج اختیارات کی تقسیم کے اصول پر حملہ ہوگا۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارٹی کے خلاف مزید غیر جمہوری اقدامات کیے گئے ہیں، جس میں پارلیمنٹیرینز اور ہائی پروفائل کارکنوں کی گرفتاریاں دیکھنے میں آئی ہیں۔
خط میں یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی پیشگی اجازت ملنے کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی حکام نے غیر منصفانہ طور پر پی ٹی آئی کے حامیوں کو حراست میں لینے کے لیے نیا پبلک آرڈر ایکٹ نافذ کیا‘۔
برطانوی ارکان پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ اس ایوان کے ارکان پارلیمنٹ اس بات پر متفق ہوں گے کہ اس سے جو سیاسی مثال قائم ہو رہی ہے وہ خطرناک ہے۔لہٰذا عمران خان کو مقدمے کی سماعت سے قبل فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ ایک ملک کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر جگہ انسانی حقوق، جمہوریت اور بین الاقوامی قانون کے لیے کھڑے ہوں۔ لہٰذا ہم زور دیتے ہیں کہ عمران خان کی بحفاظت رہائی کے لیے حکومت پاکستان سے رابطہ کیا جائے۔