مقدمات کے جلد تصفیے کے لیے جسٹس منصور علی شاہ کا منصوبہ کیا ہے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سابق چیف جسٹس، جسٹس عمر عطاء بندیال کے دور میں سپریم کورٹ ججز کے درمیان تقسیم بہت کھل کر سامنے آئی اور پھر سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے دور میں بھی یہ تقسیم واضح طور پر دکھائی دیتی رہی. لیکن آج فل کورٹ اجلاس میں تمام جج صاحبان کی شرکت اور مقدمات کو جلد نمٹانے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے سینیئر جج، جسٹس منصور علی شاہ کے منصوبے ’کیس مینیجمنٹ پلان‘ کی منظوری سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ ججز کے درمیان اختلافات شاید کم ہو گئے ہیں۔
فل کورٹ اجلاس میں زیربحث آنے والے کیس مینجمنٹ پلان کی تفصیلات تو جاری نہیں کی گئیں لیکن ماضی قریب میں جسٹس منصور علی شاہ مقدمات کے جلد فیصلوں کے حوالے سے مختلف حل تجویز کر چکے ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس ضمن میں ان کی سوچ کا محور کون سے نکات ہیں۔
عدالتی نظام کی انفارمیشن ٹیکنالوجی پر منتقلی
عدالتی اور قانونی حلقوں میں جسٹس منصور علی شاہ ایک ماہر قانون دان اور اصلاحات کے حوالے سے ایک نام اور مقام رکھتے ہیں۔ بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ انہوں نے وہاں کافی اصلاحات متعارف کروائیں۔ انہوں نے پنجاب آئی ٹی بورڈ کی مدد سے لاہور ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ کے نظام کو ڈیجیٹلائز کیا۔ سابق چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنی تقرری کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد 17 نومبر 2023 نیشنل جوڈیشل آٹومیشن کمیٹی کی تشکیلِ نو کی تھی جس کا سربراہ جسٹس منصور علی شاہ کو مقرر کیا گیا۔
اس کمیٹی نے مقدمات کی ڈیجیٹلائزیشن کے لیے کافی کام کیا اور عدالتی نظام میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس متعارف کرانے کی سمت متعین کرنے میں بھی پیش رفت کی۔ جسٹس منصور علی شاہ اکثر کہتے آئے ہیں کہ عدالتی نظام میں اصلاحات کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کی ضرورت ہے۔
وکلا ہڑتالیں کریں نہ التوا مانگیں
اس سال فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کی بڑی وجہ وکلا کی ہڑتالیں اور ان کی جانب سے التوا کی درخواستیں ہیں۔ انہوں نے ورلڈ بینک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں 80 فیصد مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کی وجہ وکلا کی ہڑتالیں اور ان کی جانب سے التوا کی درخواستیں ہیں۔
29 ہزار مقدمات کے فیصلے بہت آسان ہیں، جسٹس منصور علی شاہ
اس وقت سپریم کورٹ میں 59191 مقدمات زیرالتوا ہیں۔ اس سال 2 مئی کو فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں ثالثی نظام کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب کے موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے وہاں موجود رپورٹرز سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ سپریم کورٹ میں زیرالتوا 29 ہزار سے زائد مقدمات ایسے ہیں جن میں بحث سننے اور نوٹسز جاری کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان مقدمات میں سپریم کورٹ کو صرف یہ دیکھنا ہے کہ ہائیکورٹ کا فیصلہ درست تھا یا غلط اور اگر ایسے مقدمات کے فیصلے کر دیے جائیں تو زیر التوا مقدمات کی تعداد کافی حد تک کم ہو سکتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ سمجھتے ہیں کہ ثالثی اداروں کے قیام سے عدالتوں پر بوجھ کم ہو سکتی ہے۔
2 مئی کو جوڈیشل اکیڈمی ہی میں خطاب کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ضلعی عدالتوں میں ہر روز 70 ہزار مقدمات دائر کیے جاتے ہیں اور ہر مہینے ہائیکورٹس میں 4 ہزار مقدمات کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتیں 24 لاکھ مقدمات کے فیصلے نہیں کر سکتیں اور لوگوں کے ذہن بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر فیصلے کے لیے عدالت نہ جائیں۔
اس سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں بین الاقوامی ثالثی ادارہ بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 138 اضلاع میں ثالثی ادارے بنانے کی ضرورت ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کمرشل تنازعات کے حل کو فوقیت دی جائے اور ان کو ثالثی نظام کے ذریعے سے حل کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں ثالثی بینچز بنانے کی بھی تجویز دی تھی۔
ثالثی قانون کے حوالے سے ان کے تحریر کردہ فیصلے کو ایک لینڈ مارک ججمنٹ قرار دیا جاتا ہے۔