پاکستان اسٹیل ملز کو برباد کرنے والے کون؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان اسٹیل ملز یا پاکستان اسٹیل ملک کو بھاری دھاتی مصنوعات بنا کر دیا کرتی تھی اور اس منافع بخش ادارے نے نہ صرف ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کیا بلکہ دفاع میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا لیکن اب اس کا خسارہ 600 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کراچی میں نئی اسٹیل مل قائم کرنے کا منصوبہ بھی تیار کرلیا گیا ہے جس کے لیے 700 ایکڑ اراضی بھی مختص کردی گئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سابقہ سویت یونین کے تعاون سے سنہ 1970 میں بننے والی پاکستان اسٹیل ملز کے ساتھ آخر ایسا کیا ہوا کہ منافع کماتے کماتے وہ ملک کے لیے ایک بوجھ بن گئی۔
آباد اسٹیل مل کی بربادی کا سفر
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی اے ایچ خانزادہ نے کہا کہ روس کے تعاون سے بننے والی پاکستان اسٹیل ملز بلا شبہ ملک کے قیمتی اثاثوں میں سے ایک تھی لیکن آج اس کی حالت ویرانے اور کھنڈر جیسی ہے اور اس آباد مل کو برباد مل بنانے میں اشرافیہ کا کردار بہت افسوس ناک ہے۔
پاکستان اسٹیل مل کو برباد کرنے والے کون؟
اے ایچ خانزادہ کہتے ہیں کہ پاکستان اسٹیل مل کو برباد کرنے والے اور کوئی نہیں بلکہ ہمارے وہ اکابرین تھے جو سیاست دان کہلاتے ہیں اور مختلف ادوار کے حکمران تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان سیاست دانوں نے نااہلی، کرپشن اور کم علمی کی وجہ سے یہ ادارہ تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔
ہزاروں لوگوں کو روز گار فراہم کرنے والا ادارہ
اے ایچ خانزادہ نے کہا کہ پاکستان اسٹیل مل ملک بھر کے ہزاروں لوگوں کو روز گار فراہم کرنے والا ادارہ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیل ملز میں بین الاقوامی سطح کے انجینیئرز تھے جنہوں نے پاکستان اسٹیل ملز سے سیکھا بھی اور اسے چلایا بھی اور پھر پاکستان اسٹیل ملز کو اچانک نظر لگ گئی۔
پاکستان اسٹیل ملز کو کس کی نظر لگی؟
اے ایچ خانزادہ کہتے ہیں کہ پاکستان اسٹیل ملز کو جمہوریت اور آمریت کی رساکشی کی نظر لگ گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ جمہوری لوگوں نے سوچا کہ ہم کس طرح لوٹیں اور آمریت والوں نے سوچا کہ ہم کس طرح لوٹیں۔ ان کا مزید کہنا تھا آمریت کے دور میں لوٹنے والے کم تھے لیکن جمہوریت کے ادوار میں لوٹنے والوں کی تعداد زیادہ تھی لیکن تباہی میں دونوں کا کردار برابر رہا ہے۔
اسٹیل ملز ملازمین کی 2 بستیاں آباد ہیں
اے ایچ خانزادہ کے مطابق اسٹیل ملز ملازمین کے لیے 2 بستیاں اسٹیل ٹاؤن اور گلشن حدید بسائی گئیں جہاں پورے پاکستان سے آئے لوگ آباد ہوئے اور یہ لوگ اپنے اپنے فن میں یکتا تھے۔
منافع بخش ادارہ زوال میں کیسے آیا؟
سینیئر صحافی کے مطابق اسٹیل ملز کے ہر ملازم کو اپنے کام پر عبور حاصل تھا لیکن ہر جمہوری اور آمریت والے دور میں ہر کسی نے سفارش پر اپنے لوگ رکھنے کا سلسلہ شروع کیا کیوں کہ یہ ایک منافع بخش ادارہ تھا لیکن جب سفارش پر غیر تربیت یافتہ لوگوں کو رکھا جائے گا تو اس کا نقصان ہم سب کے سامنے ہے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا دور حکومت
اے ایچ خانزادہ کے مطابق سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں اسٹیل مل منافع اور خسارے کے درمیان ڈگمگا رہی تھی لیکن پاکستان اسٹیل ملز نے پاکستان کی دفاعی صنعت میں حیرت انگیز مثبت کردار ادا کیا لیکن پھر پسندیدہ چیئرمین لگانے کی ہوا بھی چل پڑی جو بعد والوں نے بھی جاری رکھی۔
اسٹیل ملز کا علم رکھنے والوں سے رابطہ
اے ایچ خانزدہ کا کہنا ہے کہ وہ ایک اخبار میں اپنے صحافتی فرائض نبھا رہے تھے اور انہوں نے اسٹیل ملز کے حوالے سے اپنی خبر کے لیے ان لوگوں سے رابطہ کیا جو اسٹیل ملز کے حوالے سے جانتے تھے اور پوری ذمے داری کے ساتھ میں نے اسٹیل مل کے وسائل اور مسائل پر لکھنا کا سلسلہ شروع کیا جس کے بعد مجھ پر مقدمات ہوئے قانونی نوٹسز بھیجے گئےاور لالچ دینے کی بھی کوشش کی گئی لیکن اللہ کے کرم سے ان سب کا مقابلہ کیا۔
اسٹیل مل کی بربادی یہاں سے شروع ہوتی ہے
اے ایچ خانزادہ کہتے ہیں کہ اسٹیل مل میں ایک آلہ ہوتا ہے جس کا نام کنورٹر ہوتا ہے، یوں سمجھ لیں کہ یہ ایک بہت بڑا کڑاہو ہوتا ہے جس میں اسٹیل کو پگھلایا جاتا ہے اور مختلف کیمیکلز استعمال کیے جاتے ہیں اور اس بگھلے ہوئے اسٹیل سے جو چیز بنانی ہوتی تھی اس کے لیے پگھلا ہوا اسٹیل کنورٹر فراہم کرتا ہے اور اسٹیل ملز میں اپنی گنجائش کے مطابق اس طرح کے 2 کنورٹر لگے ہوئے تھے۔
عثمان فاروقی نے بطور چیئرمین کیا کیا؟
اے ایچ خانزادہ اپنی بات جارئ رکھنے ہوئے بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی کے والد عثمان فاروقی جب اسٹیل مل کے چیئرمین بنے تو انہوں نے تیسرا کنورٹر خرید لیا کمیشن کے چکر میں وہ بھی ایک ایسی کمپنی سے خریدا جو اسٹیل میں ڈیل نہیں کرتی تھی بلکہ بنیان اور انڈرویئر بناتی تھی اور جس کا نام مرکری کارپوریشن تھا اور پھر اس کمپنی کو ایڈوانس کی مد میں خطیر رقم بھی دے دی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے یہ خبر کی جس کے بعد ان صاحب کے خلاف کارروائی بھی ہوئی۔
جب جمہوریت اور آمریت نے اپنے لوگوں کو نوازا
اے ایچ خانزادہ کے مطابق آمریت نے اپنے افسران لگائے جمہوریت نے اپنے لوگوں کو نوازا جس کا نتیجہ کامیاب اسٹیل مل کا برباد اسٹیل مل کی شکل میں نکلا۔
اس بربادی سے اسٹیل مل کو نکالنے کا فارمولا
اے ایچ خانزادہ کے مطابق کبھی یہ سننے میں آتا ہے کہ اسٹیل مل کی نجکاری ہو رہی ہے کبھی کہا جاتا ہے کہ اسے پھر سے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے دیکھیں اگر اسٹیل مل کو اپنے پیروں ہر کھڑا کرنا ہے تو سیاسی طور پر کی گئی بھرتیوں کو ختم کرنا ہوگا کیوں کہ اس وقت اس ادارے میں غیر ضروری بھرتیوں کی بہتات ہے۔
نجکاری کیوں کی جا رہی ہے؟
اے ایچ خانزادہ کہتے ہیں کہ اسٹیل ملز کی نجکاری کرنے کا ارادہ رکھنے والوں کو اسٹیل ملز سے محبت نہیں بلکہ اس کی ارضی سے انہیں محبت ہے جو بار بار شوشا چھوڑ دیتے ہیں ان کی نگاہیں اسٹیل ملز کی اس زمین پر ہے جو اب سونا بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اس قومی اثاثے کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے سنجیدہ ہے تو اس پر تھوڑی توجہ دے اور نجکاری نہیں بلکہ خود اسے روس کی مدد سے ٹھیک کرے اس طرح یہ ایک بار پھر برباد اسٹیل ملز کی بجائے آباد اسٹیل ملز بن سکتی ہے۔