پی آئی اے کی نجکاری نہ ہونے کی صورت میں ملک کو مزید کتنا نقصان ہوگا؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)ایک طویل عرصے سے تعطل کا شکار پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے عمل میں جمعرات کو پیشرفت ہوئی کیونکہ خریداری کی خواہشمند ریئل اسٹیٹ ڈیویلپمنٹ کمپنی بلیو ورلڈ سٹی کی جانب سے بولی لگادی گئی۔
یاد رہے کہ بلیو ورلڈ سٹی نے پی آئی اے کے 60 فیصد شیئرز خریدنے کے لیے 10 ارب روپے کی بولی لگائی گئی ہے جبکہ نجکاری کمیشن نے اس مقصد کے لیے ریزرو قیمت 85 ارب 3 کروڑ روپے رکھی تھی۔
ایک روپے میں بھی بک جائے تو فائدہ ہے‘
واضح رہے کہ بلیو ورلڈ سٹی بولی لگانے والی واحد کمپنی ہے۔ پی آئی اے کے خریدار کو 200 ارب روپے کا قرض بھی واپس کرنا ہوگا۔
اس سے قبل مفتاح اسماعیل نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر کوئی ایک روپے میں بھی پی آئی اے خرید لے تو وہ حکومت کے لیے فائدے کا سودا ہوگا۔
آفر نہیں آئی تو حکومت کو مشکل ترین اقدامات کرنے ہوں گے، ڈاکٹر حفیظ پاشا
معاشی ماہر ڈاکٹر حفیظ پاشا نے وی نیوز کو بتایا کہ پی آئی اے کا سالانہ خسارہ تقریباً 70 سے 80 ارب روپے ہے جبکہ پی آئی اے پر قرضوں کا بوجھ الگ ہے لہٰذا اگر حکومت کو کوئی اور آفر موصول نہیں ہوتی تو پھر اسے خود ہی کچھ کرنا پڑے گا۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ ’مناسب بولی نہ آنے کی صورت میں حکومت 2 ہی قدم اٹھا سکتی ہے جو یہ ہیں کہ ایک تو وہ پی آئی اے میں بھرتی کیے گئے اضافی ملازمین نکال دے اور دوسرا یہ کہ ایسی جگہوں پر فلائٹ چلانا بند کر دے جہاں منافعے کے بجائے نقصان ہوتا ہو۔
خریدار کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا، عابد سلہری
اس حوالے سے عابد سلہری کا کہنا ہے کہ مختلف چیزیں ہیں جو پی آئی اے کی نجکاری میں رکاوٹ بن رہی ہیں ایک تو یہ کہ خریدار 3 سال تک ملازمین کو نہیں نکال سکے گا اور اس کے بعد انہیں پینشن بھی دے گا جبکہ یورپی یونین اور امریکا کے لیے پروازیں چلائی نہیں جاسکتیں تو یہ خریدار کے لیے بڑے چیلینجز ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک اور شرط یہ بھی ہے کہ جو بھی پی آئی اے لے گا اسے پہلے 2 برس میں 500 ملین ڈالر انویسٹ کرنے ہوں گے جو کہ ایک بڑی رقم ہے جبکہ پی آئی اے کا خسارہ اور قرضے بھی اس کی نجکاری میں رکاوٹ کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔
عابد سلہری نے کہا کہ اگر پی آئی اے کی نجکاری نہیں ہوئی اور ضرورت سے زیادہ وقت لگ گیا تو حکومت کو نقصان ہوگا کیونکہ اس کا قرضہ روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے اور اس کا نقصان قومی خزانے کو برسوں سے ہو رہا ہے اس لیے نجکاری جتنی جلدی ہوگی اتنا ہی بہتر رہے گا کیوں کہ اس سے نہ صرف پی آئی اے مشکلات سے باہر آ جائے گی بلکہ حکومت کو بھی ریلیف مل جائے گا۔
پی آئی اے ایک بلیک ہول ہے، فرخ سلیم
معاشی ماہر فرخ سلیم نے پی آئی اے کو ایک عالمی بے ضابطگی، سیاسی سرپرستی، نا اہلی اور کرپشن کا بلیک ہول قرار دیتے ہوئے کہا کہ قومی ایئرلائن ہر دور میں سیاست کی نذر ہوئی ہے۔
فرخ سلیم نے کہا کہ گزشتہ 16 برسوں میں پی آئی کا خسارہ اور واجبات 73 ارب روپے سے بڑھ کر 830 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں اور ان برسوں میں ہر وزیراعظم کے تحت اوسطاً 84 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے جس کی وجہ صرف اور صرف حکومتوں کے پاس ایئر لائن چلانے کے لیے درکار مہارت کا فقدان ہے۔
انہوں نے کہا پی آئی اے کی وجہ سے پاکستانی ٹیکس دہندگان کی محنت کی کمائی میں سے ہر روز 250 ملین روپے کا نقصان ہو رہا ہے اور تاخیر میں ہر گزرتا ہوا دن مالی نقصان کی طرف ہی جارہا ہے اس لیے حکومت کو اب انتہائی عملی اور مالی طور پر ذمہ دارانہ طریقہ کار پر غور کرتے ہوئے مزید نقصانات کو روکنے اور قوم پر پڑنے والے مالی بوجھ کو کم کرنے کے لیے آپریشن بند اور ایئر لائن کے اثاثوں کو ختم کرنا ہوگا۔
ریزرو پرائس غیر حقیقی ہے، عدم نجکاری کا ذمے دار کون ہوگا، مفتاح اسماعیل
واضح رہے کہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری میں حکومت کو کامیابی نہیں ملی اور اسے ریزرو پرائس کو حقیقت سے قریب رکھنا چاہیے تھا۔
مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری نہ ہوئی تو مزید خسارے ہوں گے، 400 دنوں کی محنت ضائع ہوجائے گی، نگراں حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بہت محنت کی تھی اور قوم پی آئی اے کی نجکاری میں ایک دن کی تاخیر کی بھی متحمل نہیں ہوسکتی۔
سابق وزیرخزانہ نے سوال اٹھایا کہ پی آئی اے کی نجکاری نہ ہوئی تو ایک سال میں جو مزید 100 ارب روپوں کا خسارہ ہوگا اس کا کون ذمے دار کون ہوگا۔