بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ،حق حاکمیت و حقیقی حق حکمرانی کا ہے، بی این پی
کوئٹہ(قدرت روزنامہ)بلوچستان نیشل پارٹی کے ممبر سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی و ضلعی صدر کوئٹہ غلام نبی مری، جنرل سیکریٹری میر جمال لانگو، سینئر نائب صدر ملک محی الدین لہڑی، نائب صدر طاہر شاہوانی ایڈوکیٹ، ڈپٹی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر علی احمد قمبرانی، جوائنٹ سیکریٹری اسماعیل کرد، انفارمیشن سیکریٹری نسیم جاوید ہزارہ، فائنانس سیکریٹری میر اکرم بنگلزئی، لیبر سیکریٹری ملک عطا اللہ کاکڑ، خواتین سیکریٹری محترمہ منورہ سلطانہ، کسان ماہیگیر سیکریٹری ملک ابراہیم شاہوانی، ہیومن رائٹس سیکریٹری پرنس رزاق بلوچ اور پروفیشنل سیکریٹری میر مصطفی سمالانی نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں مستونگ دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان پچھلے کئی دہائیوں سے لہو لہو ہے اس پر معصوم اور بے گناہ بچوں اور بچیوں کو نشانہ بنانا اور بالخصوص تعلیمی ادارے کو بارود سے اڑانے کا بزدلانہ اور ظالمانہ عمل نہایت ہی دلخراش اور ناقابل برداشت ہے۔ یہ دہشت گردانہ کاروائی حکومت اور ایجنسیوں کی سازشوں کا حصہ ہے جنہوں نے بلوچ وطن کو میدان جنگ بنا کر یہاں پر توسیع پسندانہ عزائم اور پالیسیوں کو تقویت دینے کے لئے مذہبی انتہا پسندی، خوف و ہراس، لوٹ کھسوٹ کا راستہ اپنایا ہے تاکہ حقیقی ترقی پسندانہ لیبرل سوچ و خیال اور قومی و نظریاتی جمہوری جدوجہد کو کمزور کیا جا سکے اس سے پہلے بھی مستونگ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں خواتین اور معصوم بچیوں پر حملے کئے گئے ان پر تیزاب پھینکا گیا، اسکولوں کو زبردستی بند کیا گیا اس کے علاوہ بلوچوں کا لاپتہ کروانا، جبری گمشدگیاں اور سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے، بلوچوں کا مسئلہ قومی واگ و اختیار، حق حاکمیت و حقیقی حق حکمرانی کا مسئلہ ہے، ساحل و وسائل اور جغرافیہ پر بلوچوں کی ملکیت کا مسئلہ ہے جس کی خاطر بلوچ نوجوانوں، خواتین اور دیگر طبقات فکر کی ترقی پسندانہ تحریکیں چل رہی ہیں اور بلوچستان میں شورش برپا ہے بلوچوں کی تحریک اور شورش کو کاونٹر کرنے کے لئے مقتدر طبقہ کی جانب سے بنیاد پرستی اور طالبانائزیشن کو فروغ دیا جا رہا ہے، فرقہ واریت کو ہوا دی جاتی ہے، کبھی مذہبی اور لسانی بنیادوں پر انتہا پسندانہ وارداتیں کرائی جاتی ہیں، کبھی خود کش حملے اور دہشت گردانہ حملے کروائےجاتے ہیں جس میں بے گناہ عوام اور معصوم بچوں کو نشانہ بنائے جاتے ہیں تاکہ ایسے واقعات اور وارداتوں سے بلوچستان کے اصل مسئلے سے توجہ ہٹا کر دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنے کی کوشش کیا جائے کہ بلوچستان میں قومی سوال اور قومی حقوق اور اختیار کے حصول کا مسئلہ نہیں بلکہ یہاں بنیاد پرستی اور مذہبی منافرت اور فرقہ واریت اور قوموں کی چپقلش کا مسئلہ ہے اور اس کو مزید جواز فراہم کرنے کے لئے کبھی مزدوروں کو قتل کیے جاتے ہیں کبھی راہگیروں اور ٓٹرانسپورٹروں کو نشانہ بنائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کا مستقل حل سیاسی بنیادوں پر ممکن ہے اس لئے مقتدر طبقہ سازشوں کو ترک کر کے سنجیدگی کے ساتھ مستقل حل کا راستہ اپنائے۔