آمدن میں کمی، حکومت کے پاس ٹیکس بڑھانے، منی بجٹ کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا


اسلام آباد (قدرت روزنامہ) ایف بی آر کی آمدن میں کمی کے پیش نظر حکومت کے پاس اضافی آمدن کےلیے اقدامات کرنے کے سواکوئی آپشن باقی نہیں رہ گیااور ان آپشنز میں ٹیکس کی شرحوں میں اضافے کی صورت میں منی بجٹ لانا اوراخراجات کم کرنا اور نفاذ کے اقدامات شامل ہیں۔
ایک آرڈیننس کا مسودہ بنالیا گیا ہے اور اسے جلد ہی وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیے جانے کا امکان ہے،آئی ایم ایف کا وفد دسمبر سے پہلے اسلام آباد آسکتا ہے۔ یہی وہ چند اقدامات ہیں جن سے آئی ایم ایف مطمئن ہوسکتا ہے۔اگرچہ ابھی تک ایسے کوئی مضبوط شواہد تو نہیں کہ آئندہ چند مہینوں میں آئی ایم ایف اپنا کوئی مشن اسلام آباد بھیجے گا۔
پاکستانی حکام کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی ٹیم دسمبر 2024 میں پاکستان کا دورہ کرے گی لیکن اندر کے لوگوں کا اصرار ہے کہ وہ جلد ہی کسی وقت آنے کو ترجیح دے گی۔ ایک آرڈیننس کا مسودہ بنالیا گیا ہے اور اسے جلد ہی وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ یہ توقع کی جارہی ہے کہ اس آرڈیننس کا اجرا رواں مہینے میں ہی ہوجائے گا۔
ایف بی آر کے ہائی اپس کا دعویٰ ہے کہ مجوزہ آرڈیننس میں بینک اکائونٹس منجمد کرنے، پلاٹوں کی خریداری، گاڑیوں کی خریداری اور دیگر اقدامات جیسےسخت اقدامات کا نفاذ شامل ہے۔
ایک اعلیٰ ذریعے نے دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ ایف بی آر تمام درآمدات پرود ہولڈنگ ٹیس کی شرحیں بڑھا سکتا ہے، جائیدادوں کی خریدوفروخت پر ودہولڈنگ ٹیکس بڑھانے اورٹیکس کی دیگر شرحوں میں اضافے جیسے اقدامات کیے جاسکتے ہیں، اس کے باوجود ایک آپشن اکنامک مینیجرز کے سامنے یہ بھی ہے کہ ترقیاتی بجٹ ( پی ایس ڈی پی ) کو مزید نچوڑاجائے۔ واضح رہے کہ جولائی سے ستمبر کی پہلی سہ ماہی میں 1100 ارب روپے کے مجموعی مالی سال کے بجٹ میں سے محض 22 ارب روپے روپے استعمال کیے گئے ہیں۔
ایف بی آر کو 189 ارب روپے کے آمدن کے شارٹ فال کا سامنا پہلے چار ماہ کے عرصے کے دوران ہے اور یہ تحفظات بڑھ رہے ہیں کہ ٹیکس میشنر ی کو پہلے چھ ماہ کے دوران بڑھتے ہوئے شارٹ فال کا سامنا رہے گا۔
ایف بی آرکی جانب سے ریونیو کے تخمینہ سے ظاہرہوتا ہے کہ پہلے چھا ماہ میں خسارہ 321 ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے جس سے آئی ایم ایف کے ساتھ سمجھوتے کے فریم ورک کے مطابق منی بجٹ کے سواکوئی آپشن نہیں رہے گا۔ یہ حکومت کی صوابدید پر منحصر ہے کہ آئی ایم ایف کو اخراجات کم کر کے مطمئن کرے، لیکن وزارتِ خزانہ اس طرح کی کسی بھی تجویز پر خوش نہیں ہوگی۔
چند روز قبل وزیر مملکت برائے خزانہ اور سیکرٹری خزانہ کی زیر صدارت ایک اجلاس منعقد ہوا جب کہ وزیر خزانہ کو واشنگٹن ڈی سی میں آئی ایم ایف/ورلڈ بینک کی سالانہ میٹنگ میں شرکت کے بعد وزیر اعظم کے ساتھ سعودی عرب کے دورے پر جانا تھا۔ اس اجلاس میں وزارتِ خزانہ کے اہلکار بجٹ کے اندازے اور موجودہ مالی سال کی پہلی ششماہی میں 321 ارب روپے کے ٹیکس خسارے کے متوقع ہونے پر پریشان اور ناخوش تھے۔ اگر ٹیکس خسارہ مزید بڑھ گیا تو وزارت خزانہ کو اپنے بے قابو اخراجات میں کمی کرنا پڑے گی۔
ایک اہلکار نے یہ دلیل دیتے ہوئے کہ معیشت میں پہلے ہی طلب دباؤ میں ہے اور ٹیکس کی شرح میں اضافے سے معاشی سرگرمیاں مزید متاثر ہوں گی، کہا کہ پاکستانی ٹیم ایک بہت تنگ راستے پر چل رہی ہوگی، کیونکہ اگر ٹیکس کی شرح میں اضافے کی صورت میں محصولات کے اقدامات کی منظوری ملتی ہے تو اس سے معیشت مزید سکڑ سکتی ہے۔
جب ٹی وی چینل نے خبریں نشر کیں تو ایف بی آر کے ترجمان نے ہفتہ کی شام اپنے سرکاری بیان میں کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ بعض الیکٹرانک میڈیا چینلز نے ایک بالکل بے بنیاد اور جھوٹی خبر نشر کی جس میں یہ کہا گیا کہ آئی ایم ایف نے ایف بی آر کی اہداف کی نظر ثانی کی درخواست مسترد کر دی ہے۔
واضح طور پر یہ تردید کی جاتی ہے کہ اس موضوع پر آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی ایسا اجلاس ہوا ہے۔ نہ ہی یہ موضوع کسی بھی اجلاس، ورچوئل یا کسی اور شکل میں، آئی ایم ایف کے ساتھ ایجنڈے میں کبھی شامل تھا۔لہٰذا، ایف بی آر اس خبر کو مسترد کرتا ہے اور قومی میڈیا کو مشورہ دیتا ہے کہ ایسی جعلی خبروں سے گریز کریں جو ہمارے قومی مفادات کو منفی طور پر متاثر کر سکتی ہیں۔