اوورسیز پاکستانیوں کیجانب سے بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر پر ٹیکس نہیں لگایا جا رہا، وزارت خزانہ


اسلام آباد (قدرت روزنامہ) وزارت خزانہ نے سینیٹ آف پاکستان کو آگاہ کیا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر پر کسی قسم کا ٹیکس نہیں لگایا جا رہا۔ترسیلات زر بھجوانے میں سعودی عرب میں مقیم پاکستانی کسی بھی دوسرے ملک سے بہت آگے ہیں۔
سینیٹ کے اجلاس میں جمعے کو وزارت خزانہ کی جانب سے تحریری جواب میں بتایا گیا کہ ٹیکس سے متعلق معاملات کو بنیادی طور پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے تحت ریگولیٹ کیا جاتا ہے۔
اس میں واضح کیا گیا کہ ایف بی آر بیرون ملک سے پاکستان آنے والی ترسیلات زر پر ٹیکس نہیں لگاتا۔ تاہم کاروباری لین دین کے ذریعے آنے والی غیرملکی آمدنی پر ٹیکس عائد ہوتا ہے، جو پاکستان میں کاروبار یا سروسز کی صورت میں موصول ہو۔
وزارت خزانہ نے وضاحت کی کہ اشیا اور خدمات کی آمدنی پر ٹیکس کی عمومی شرح ایک فیصد ہے، جبکہ آئی ٹی کی خدمات سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ٹیکس کی شرح کم کر کے 0.25 فیصد رکھی گئی ہے۔
مزید برآں مقامی بینکوں کی جانب سے موصول ہونے والی ترسیلات زر پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس یا چارجز نہیں لگائے جاتے۔ اس کا مطلب ہے کہ جس فرد کو یہ رقوم بھیجی جاتی ہیں، وہ انہیں کسی بھی قسم کے اضافی اخراجات یا ٹیکسز کے بغیر حاصل کر سکتا ہے۔
وزارت خزانہ نے مزید کہا کہ عام طور پر ترسیلاتِ زر بھیجنے والے افراد (جو کہ زیادہ تر بیرون ملک میں مقیم پاکستانی ہیں) سے مخصوص فیس اور وی اے ٹی وصول کی جاتی ہے۔ لیکن حکومتِ پاکستان (جی او پی) کے ریبیٹ ماڈل کے تحت 100 امریکی ڈالر یا اس سے زیادہ کی گھریلو ترسیلات زر پر کسی بھی قسم کے چارجز یا ٹیکسز سے استثنیٰ دیا جاتا ہے، تاکہ ترسیلات زر کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔
وزارت خزانہ نے گزشتہ تین سال کی ترسیلاتِ زر کی تفصیلات فراہم کر تے ہوئے بتایا ہے کہ جنوری 2022 سے جولائی 2024 تک مختلف ممالک سے پاکستان کو بڑی مقدار میں ترسیلات زر موصول ہوئیں جس سے پاکستانی معیشت کو سہارا ملا۔
ان ترسیلات زر میں امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانی بڑے معاون رہے۔ مالی سال 2023 میں کل ترسیلات زر 27.3 بلین ڈالر تک پہنچیں، جو مالی سال 2024 میں بڑھ کر 30.2 بلین ڈالر ہو گئیں۔