ہماری تحریک کھلی کتاب کی مانند، ہم بلوچستان میں قومی جمہوری جدو جہد کر رہے ہیں، آغا حسن بلوچ
اسلام آباد،کوئٹہ(قدرت روزنامہ)بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی قائمقام صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ ، مرکزی سیکرٹری اطلاعات سابق وفاقی وزیر آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ نے اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان بدترین سیاسی ، سماجی ، معاشی بحرانوں سے دو چار ہے جمہوری عمل کو دانستہ طور پر روکنے کی سازشیں کی جارہی ہیں بی این پی کے قائد سردار اختر جان مینگل و دیگر کے خلاف جھوٹے مقدمہ کا اندراج ، اختر حسین لانگو شفیع مینگل کو غیر قانونی طور پر زندانوں میں ڈالنا، جسمانی ریمانڈ دینا اور مزید ریمانڈ کی مدت میں اضافہ کی ڈیمانڈ سے لگتا ہے کہ بی این پی کو سیاسی ، جمہوری عمل سے دور رکھنا حکمرانوں کا مقصد ہے موجودہ حکمران جماعتیں جو جمہوریت پسند ہونے کے دعوے کرتے ہیں اور میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کا راگ الاپتے نہیں تھکتے لیکن عملی طور پر حالیہ آئینی ترمیم میں جس طرح طاقت کا استعمال کیا گیا وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بلوچستان کی سب سے بڑی قومی جمہوری سیاسی قوت رکھنے والی پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل کے ساتھ پارلیمان میں حکمرانوں کے ایما پر جو رویہ روا رکھا گیا اس سے بلوچستان کو یہ پیغام دیا ہے کہ مظلوم اقوام کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھنا غلط نہیں مگر بلوچستان کے غیور عوام ، سیاسی جماعتوں ، انجمن تاجران، وکلا سمیت ہر طبقہ فکر نے پارٹی شیڈول پر مظاہروں ، شٹر ڈان ہڑتال ، پہیہ جام کی حمایت کر کے ثابت کیا کہ بی این پی کو دیوار سے لگا نا ممکن نہیں ہماری جہد حق ، سچائی، عوام کی قومی اجتماعی مفادات کی خاطر ہے ماضی میں بھی حکمرانوں نے پارٹی کو دیوار سے لگانے کی کوششیں کیں ناروا پالیسیاں اپنائیں مگر نا کام رہے انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تحریک کھلی کتاب کی مانند ہے ہم بلوچستان میں قومی جمہوری جدو جہد کر رہے ہیں بلوچستان کے عوام خصوصا نو جوانوں کو سیاسی عمل سے دور رکھنے کی نتائج بہتر نہیں ہوں گے لوگوں کی آواز ، اظہار آزادی ارائے ، سیاسی جدو جہد پر پابندی لگائی جا رہی ہے آج بھی ہزاروں بلوچوں کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کر لئے گئے ہیں نو جوانوں کو تعلیم کے حصول سے روک کر تھانوں کو چکر لگوائے جا رہے ہیں آئے روز بلوچ طلبا کو گمشدگیوں سے احساس محرومی میں اضافہ ہوگا حکمرانوں کے تمام منفی اقدام تاریخ کا حصہ ہیں موجودہ حالات کی تمام تر ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے بلوچستان کے محکوم اقوام ان کا تعلق کسی بھی قوم نسل سے تعلق ہو ان کو معاشی استحصال کا نشانہ بنایا جارہا ہے بلوچستان کے تمام بارڈر بند ، تاجر نان شبینہ کے محتاج ہو چکے ہیں حکمران طاقت کے استعمال کو تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں جو کہ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔