امریکی نائب صدر کے وائٹ ہاؤس پہنچنے کے امکانات کم کیوں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وائٹ ہاؤس پر اپنی نگاہیں جماتے ہوئے کملا ہیرس ان نائب امریکی صدور کی فہرست میں شامل ہوچکی ہیں، جو اوول آفس میں قدم رکھنے کے خواہاں رہے ہیں، تاہم حکومت کے اس اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچانا ایک الگ کہانی رہی ہے جو شاید کملا ہریس کے لیے بھی کچھ زیادہ مختلف نہ ہو۔
کالج آف ولیم اینڈ میری میں امریکی سیاست کے استاد جان میک گلینن سمجھتے ہیں کہ امریکی صدارتی انتخابات کی دوڑ میں بیشتر نائب صدور آئندہ مدت کے لیے بطور صدارتی امیدوار اپنی پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے میں کافی کامیاب رہے ہیں لیکن انتخابات جیتنے میں کچھ زیادہ نہیں۔
امریکی تاریخ میں 49 نائب صدور میں سے صرف 15 صدر بنے ہیں، ان میں سے بھی 8 اس لیے وائٹ ہاؤس پہنچے کیونکہ انہوں نے اس وقت کے صدر کی موت کے بعد عہدہ سنبھالا تھا جبکہ جیرالڈ فورڈ اس وقت صدر بنے جب ان کے پیشرو صدر رچرڈ نکسن نے مستعفی ہوگئے تھے۔
جدید تاریخ میں 3 میں سے 1 نائب صدور کامیابی کے ساتھ صدر منتخب ہوئے ہیں۔ 1933 سے، 18 میں سے 15 نائب صدور نے اپنی صدارتی مہم شروع کی مگر ان میں سے صرف 5 کامیابی سے ہمکنار ہوئے جن میں ہیری ٹرومین، لنڈن جانسن، رچرڈ نکسن، جارج ایچ ڈبلیو بش اور جو بائیڈن شامل ہیں۔
اگر ہیرس جیت جاتی ہیں، تو وہ جدید تاریخ میں صرف دوسری نائب صدر ہوں گی جنہوں نے نائب صدر کی مدت کے فوراً بعد کامیابی سے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا، 1933 کے بعد ایسا کرنے والا پہلے شخص جارج ایچ ڈبلیو بش تھے، جنہوں نے 1988 میں ایک مدت کے لیے رونالڈ ریگن کی جگہ لی تھی۔
1930 کی دہائی سے پہلے بہت سے نائب صدور صدارتی دوڑ سے گریزاں رہے تھے، اس سے پہلے کی کچھ مثالوں میں جان ایڈمز، ٹامس جیفرسن اور تھیوڈور روزویلٹ شامل ہیں، لیکن یہ رجحان تبدیل ہوچکا ہے، جس کا آغاز 1933 میں فرینکلن ڈی روزویلٹ کی پہلی مدت کے ساتھ ہوا تھا۔