بلوچستان کنفلیکٹ زون کی شکل اختیار کر چکا ہے،ریاست کے غلط پالیسیوں کا خمیازہ لوگ بھگت رہے ہیں، نیشنل پارٹی


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)نیشنل پارٹی کے صوبائی ترجمان عبید لاشاری نے اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ یوں تو بلوچستان ڈکٹیٹر ضیا الحق کی اسلام کہ نام اور امریکہ کہ ایما پر سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جنگ میں شریک ھو کر بلوچستان کو کلاشنکوف منشیات اور افغان مہاجرین جیسے مسائل سے دو چار کیا اور ایک پرامن بلوچستان میں انتشار بدامنی اور لسانی تعصبات کو جنم دیا پھر جب امریکہ افغان سرزمین پر خون کی ھولی کھیلنے آیا تو ایک اور ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف ان کہ آگے سرنگوں ھوا اور افغانستان سمیت اپنے ہیملک میں پر امن شہریوں پر جنگ مسلط کی جس کہ بہیانک نتائج بلوچستان اور کے پی کے سمیت ملک بھر کی عوام آج تک بھگت رہی ھے گزشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان سمیت ملک کہ جو حالات امن و امان ک حوالے سے انتہائی خراب ہیں اس کی بڑی وجہ ریاست کی غلط خارجہ پالیسیاں ہیں جو پالیسیاں عوام کہ نمائیندے نہیں ریاست کے بالادست قوتیں بناتیں ھیں ان غلط پالیسیوں کا خمیازہ دہائیوں سے عوام نے بھگتا ھے اور بھگت رہی ھے گزشتہ دنوں رونما ھونے والی ایک اور سانحہ مستونگ اسی غلط پالیسیوں کی ایک کڑی ھے ۔ریاست کی غلط پالیسیوں کے باعث آ ج ریاست پاکستان ہمسایوں سمیت دنیا بھر میں تنہا ھے اور اس کہ نتیجہ میں بلوچستان کنفلیکٹ زون کی مکمل شکل اختیار کر چکا ھے جس کہ باعث ھمسایہ ممالک سمیت عالمی سامراجی قوتیں بلوچستان میں اپنا اپنا خونی کھیل کھیل رھی ھیں جس کہ باعث بلوچستان کئی دھائیوں سے دھشت گردوں کی آ ماج گاہ بن چکا ھے ، سی آئی اے، را ،اور موساد جیسی دیگر انسانیت دشمن ایجنسیاں اپنا اپنا کردار انسانیت کے خلاف بلوچستان سمیت ملک بھر میں ادا کر رھی ھیں اور اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل میں مصروف عمل ہیں ۔تو دوسری طرف ھماری ریاست کہ حکمران اور اس کہ سیکیورٹی ادارے اپنی غلط غیر آئینی اور ظالمانہ پالیسیوں پر آج تک قائم ھیں ریاست اور اس کی بالادست قوتیں مظلوم و محکوم قوموں کے وسائل پر قابض ھونے کہ لیئے تمام غیر آئینی غیر قانونی اقدامات پر عمل پیرا ھیں ، صوبائی ترجمان نے کہا کہ اس سے بڑی ریاستی ناانصافی اور کیا ھوگی کہ بلوچستان کی عوام سمیت ملک بھر کی عوام کو اس کہ ووٹ سے بھی گزشتہ الیکشن میں اسی فیصد محروم کردیا گیا۔بلوچستان میں تو یہ کھیل اس وقت شروع ھوا جب 70 کی دہائی میں عوام کی منتخب حکومت نیپ کو سال بمشکل چلنے دیا گیا اور اسے غیر آئینی طریقے سے ختم کر دیا گیا پھر عوام کہ حقیقی رہنماوں کی طویل جہدوجہد کہ نتیجے میں 1988 میں بی این اے کی شکل میں نواب اکبر بگٹی اقتدار میں آنے تو وہ بھی وقت سے پہلے رخصت کر دیئے گئے یہی حال سردار اختر مینگل کی حکومت کا ھوا اور پھر طویل عرصے بعد جب بلوچستان اسی طرح 2012,13 میں آگ میں جل رھا تھا تو بلوچستان کی عوام نے ایک سیاسی جماعت کہ سیاسی کارکن قائد عوام ڈآکٹر عبد المالک بلوچ کو یہ موقع عوام کی مدد سے ملا کہ وہ بلوچستان میں جلتی ھوئی آگ پر پانی ڈالے اور اس سیاسی کارکن نے اٹھائی سالہ دور میں جو امن وامان تعلیم وصحت کہ میدان یا گڈ گورننس کہ حوالے سے جو اقدامات کئے وہ تاریخ کا سنہری باب ھیں مگر جب وہ کامیابی سے آگے بڑھ رھے تھے تو اسے بھی نا برداشت کرتے ھوئے بلوچستان کو ایک بار پھر آگ میں دھکیل دیا گیا اور جس آگ میں آج سانحہ مستونگ کے پھول نما بچے بھی جل گئے اور پولیس اہلکار سمیت عام شہری بھی کاش ریاست کے اصل حاکم بلوچستان کی عوام پر رحم کرتے ھوئے 2024 میں عوام کی رائے کو کم از کم نا بدلتے تو شاید آج یہ حالات نا ھوتے بلکہ عوام کہ منتخب نمائیندے 2013کہ بعد پھر ایک بار لگی ا گ پر اپنے علم ودانش اور سیاسی بصیرت کہ ساتھ پانی ڈالتے مگر اس بار تو طاقتور قوتوں نے تمام حدیں پار کردیں اور بلوچستان کی اسمبلی کو برائے فروخت ایک منڈی بنادیا گیا اور عوام کے ووٹ کو روند کر بلوچستان کے 80% فیصد عوام کہ نمائندوں کی جیت کو ھار میں تبدیل کر کہ عوام کی نمائندگی کو آکشن کر دیا گیا، جس کہ نتیجے میں عوام کہ نمائیندے نہیں بلکہ عوام کہ قاتل لٹیرے لینڈ مافیا ڈرگ مافیا سمیت ضمیر فروشوں سے عوام کی نمائندگی کرنے والی اسمبلی کو بھر دیا ۔جہاں کوئی عزت دار نمائیندہ و سیاسی رہنما بات کرتے ھوئے بھی سوچتا ھے کہ فارم سینتالیس سے جنم لینے والے یہ نام نہاد ممبر اسمبلی کہیں اپنی بدکلامی سےکہیں ھماری پگڑیاں نا اجھالیں ،کیونکہ انہیں صرف اسی لیئے لیا گیا کہ وہ وہی بولیں گے وہی کریں گے جو طاقتور اور زورآور چاھیں گے ۔مسلط کردہ حکومت کی حالت یہ ھے کہ وہ عوام میں جانے کہ قابل ہی نہیں عوام کہ اربوں روپے خرچ کرنے کہ بعد بھی امن نام کی کوئی چیز نہیں مگر تب بھی فیصلہ ساز قوتیں بلوچستان کی عوام کو تاحال ان کہ رحم و کرم پر چھوڑنے پر بضد ھیں چاھے سانحہ مستونگ جیسے المناک واقعے ھی کیوں نا ہوں۔