امریکی انتخابات کے بعد پاکستان کے لیے کیا اچھا اور کیا برا ہوسکتا ہے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)دنیا سمیت پاکستان کی نظریں اس وقت امریکی انتخابات پر مرکوز ہیں، ہر خاص و عام اس انتظار میں ہے کہ انتخابات کے بعد نئی حکومت ڈونلڈ ٹرمپ کی آتی ہے یا کمالا ہیرس کی۔ باوجود اس کے کہ امریکی پالیسی یکساں رہتی ہے لیکن دنیا بھر میں ایک امید کی جاتی ہے کہ اگر سپر پاور میں آنے والی نئی حکومت ان کے لیے اچھا اور دوستانہ ماحول پیدا کرلے تو بہت اچھا ہو جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان بھی یہی چاہے گا کہ امریکا کے ساتھ تعلقات اتنے بہتر ہوجائیں کہ دنیا بھر کے سرمایہ کار امریکا کے کہنے پر پاکستان کا رخ کریں تاکہ پاکستان بحران سے نکل سکے۔ اب وقت آچکا ہے کہ امریکا میں نئی حکومت بننے جا رہی ہے اور پاکستان بھی امید کرتا ہے کہ آنے والی حکومت پاکستان کے لیے اچھی نوید لے کر آئے۔
امریکا میں حکومت کی تبدیلی سے پاکستان پر کیا مثبت اور منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اس پر ماہرین نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اورسیز ایمپلائیز پروموٹرز ایسوسی ایشن کے نائب چئیرمین اور تجزیہ کار عدنان محمد پراچہ کہتے ہیں کہ امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات اس وقت پوری دنیا میں زیر بحث ہیں کیوںکہ ایک سپر پاور ہونے کے علاوہ امریکا پوری دنیا میں اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہے۔
عدنان محمد پراچہ کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں کے عوام کی دلچسپی تھوڑی مختلف دکھائی دے رہی ہے، یہاں پر لوگ ہمیشہ کی طرح توقعات کر رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ آئے تو ایک خاص نظریہ رکھنے والوں کو فائدہ ہوگا یا اگر کمالا ہیرس آتی ہیں تو دوسرا نظریہ رکھنے والوں کو فائدہ ہوگا۔
انہوں نے کہا ایسا نہ ہوکہ ہمیشہ کی طرح نتائج اکثریتی توقعات کے برخلاف ہوں۔ امریکا میں صدر جس بھی جماعت کا ہو ان کے خیال سے پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیوںکہ امریکا کا نظام ایک طے شدہ سسٹم کے تحت چلتا ہے اور ہر ملک کے ساتھ اس کی ایک طے شدہ پالیسی ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے معاملات آگے بڑھائے جاتے ہیں۔
عدنان پراچہ نے پاکستانی حکومت پر زور ڈالا ہے کہ امریکا میں جس کسی کی بھی حکومت آتی ہے ہماری حکومت کو چاہیے کہ امریکا کے ساتھ مل کر ایک پیج پر معاملات بڑھانے کی ضرورت ہے، دیرپا پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ جس میں بزنس کمیونیٹی ایکسپورٹ اور مین پاور کو ہم اچھے انداز میں اگر پیش کریں تو امریکا ہمارے لیے بڑی مارکیٹ ہے اور اس سلسلے میں اگر سوچا جائے تو بڑی ترسیلات زر حاصل کی جاسکتی ہے۔
اسٹاک مارکیٹ ایکسپرٹ و تجزیہ کار شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے مابین تعلقات بہت اہمیت کے حامل ہیں اور 70 برس میں ان تعلقات میں اتار چڑھاؤ دیکھا گیا ہے، اور اس چیز کا براہ راست اثر پاکستان کی معیشت اور سیاست پر پڑتا ہے۔ خاص طور پر جب جون میں ڈیفالٹ کے خطرات سے پاکستان دوچار تھا تو امریکا ہی تھا جس کی سفارش پر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوا، ہمارے ذخائر جو 3.5 بلین ڈالر تک پہنچ چکے تھے آج 11ارب تک پہنچ چکے ہیں۔
شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ امریکی انتخابات کو پاکستان کے عوام بہت غور سے دیکھ رہے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آنے والی حکومت کی پالیسیاں کیا ہوتی ہیں اور پاکستان کے ساتھ نئی پالیسی بنانی ہے یا وہی رہے گی، بائیڈن کے وقت کی۔ اگر امداد کی بات کی جائے تو اس وقت کوئی خاص امداد پاکستان کو امریکا سے نہیں مل رہی، خاص طور پر کیری روگل بل کی اگر بات کی جائے تو وہ بند ہوچکا ہے، لیکن پاکستان کو اس وقت بھی امریکا سے اقتصادی سپورٹ کی ہی ضرورت ہے۔
شہریار بٹ کہتے ہیں کہ پاکستان سب سے زیادہ ایکسپورٹ امریکا کو کرتا ہے، اگر پالیسی برقرار رہتی ہے تو ہماری تجارت بڑھے گی اور امید ہے کہ چمڑے کی مصنوعات یہاں سے امریکی مارکیٹ میں اپنا مقام بناسکتی ہیں۔
شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ سیاست اور جغرافیائی طور پر پاکستان اور امریکا کے تعلقات اہمیت کے حامل ہیں، اگر نئی امریکی حکومت چین مخالف آتی ہے تو پھر پاکستان پر بھی یہ پریشر رہے گا کہ وہ چین کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کرے تو اس تناظر میں پاکستان کے لیے اتنا آسان نہیں ہوگا۔ امریکا کے ساتھ معاملات آگے بڑھانا اور خاص طور پر بائیڈن دور کی پالیسی آگے بڑھتی ہے تو پاکستان کے لیے خوش آئند رہے گا۔