بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران دہشتگردی میں کتنا اضافہ ہوا؟


کوئٹہ (قدرت روزنامہ)بلوچستان میں سرفراز بگٹی کی سربراہی میں تشکیل پانے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران دہشتگردی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
گزشتہ روز بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں دہشت گردوں نے ایک بار پھر معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا، ریلوے اسٹیشن پر خود کش حملے کے نتیجے میں 27 افراد جانبحق جبکہ 62 زخمی ہوئے تاہم دہشت گردی کی نئی لہر نے صوبے میں سیکیورٹی صورتحال پر سوالیہ نشان اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔
بات کی جائے اگر رواں برس مارچ کے مہینے میں بننے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کی تو سرفراز بکٹی کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد دہشت گردی کے واقعات سے ہلاکتوں میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملا۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے رواں برس مارچ کے مہینے میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور چند ہفتوں بعد اپنی کابینہ تشکیل دے دی۔ حکومت قائم ہوتے ہی بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات اور ان سے ہونے والے نقصان میں بھی بدستور اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔
دہشت گردی کے 213 واقعات
محکمہ داخلہ کی اعداد و شمار کے مطابق رواں برس مارچ سے لے کے اب تک دہشت گردی کے 213 واقعات رونما ہوئے جن میں مجموعی طور پر 207 افراد جانبحق جبکہ 295 زخمی ہوئے۔
محکمہ داخلہ کے مطابق مارچ کے مہینے میں دہشت گردی کے 26 واقعات رونما ہوئے جن میں 11 افراد جان حق جبکہ 29 زخمی ہوئے۔ اپریل میں شر پسندی کے 31 واقعات میں 21 افراد لقمہ اجل بنے، جبکہ 29 افراد زخمی ہوئے۔ مئی کا مہینہ بھی دہشت گردی کے واقعات کو کم نہ کرسکا، 27 واقعات میں 14 افراد جانبحق جبکہ 32 زخمی ہوئے۔ جون میں شدت پسندی کے 37 واقعات میں 7 افراد جانبحق 21 زخمی، جولائی میں 30 واقعات 11 افراد جانبحق 19 زخمی ہوئے۔

محکمہ داخلہ کے مطابق اگست کا مہینے میں امن و امان کی صورتحال بدترین رہی دہشت گردی کے 49 واقعات میں 69 افراد جانبحق، 64 زخمی ہوئے۔
ستمبر 6 دہشت گردی کے واقعات میں 9 اکتوبر میں 5 دہشت گردی کے واقعات 31 جبکہ نمبر کے ابتدائی میں دہشت کے دو بڑے واقعات میں 34 افراد جانبحق ہو چکے ہیں۔
محکمہ داخلہ کے مطابق گزشتہ 8 ماہ کے دوران دہشت گردی کے 380 واقعات رونما ہوئے جن میں 188 افراد جانبحق جبکہ 370 زخمی ہوئے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بننے اور بالخصوص سرفراز بگٹی کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد دہشت گردی کے واقعات اور صوبے میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہوتی جا رہی ہے۔ دہشت گرد کھلے عام قومی شاہراہوں پر گھنٹوں ناکہ لگا کر شر پسندی کی کاروائیوں کو سرانجام دیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود حکومت صوبے میں امن و امان کو قائم کرنے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہے۔

کوئلہ کانوں سے بھتہ وصولی
دوسری جانب صوبے کے وزرا کھلے عام اب اس بات کا اقرار کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ کلعدم تنظیمیں کوئلہ کانوں سے کروڑوں روپے بھتہ وصول کر کے اپنی جڑوں کو صوبے میں مضبوط کر رہی ہیں، ایسے میں حکومت کے پاس دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کوئی مؤثر پالیسی موجود نہیں، جس کے باعث عوام کو جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
نقل مکانی کا آغاز
تجزیہ کاروں کے مطابق دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر بلوچستان کے مختلف حصوں سے نقل مکانی کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے جس کی ایک واضح مثال حال ہی میں دُکی سے 40 ہزار کان کن نقل مکانی کرگئے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبے کی بلوچ آبادی والے علاقوں سے بھی لوگ مختلف صوبوں کا رخ کر رہے ہیں۔
حکومت عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے جبکہ حکومت کی دلچسپی بڑے بڑے اعلانات اور دعوے کرنے تک ہی محدود ہے۔