بنگلہ دیش میں معزول وزیر اعظم حسینہ واجد کی عوامی لیگ کی ریلی نکالنے کی کوشش ناکام، متعدد گرفتار


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے حریف سیاسی گروہوں نے ان کی جماعت عوامی لیگ کی جانب سے بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ریلی نکالنے کے منصوبے کو ناکام بنا دیا۔
ڈھاکہ میں معذول سابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی پارٹی کی جانب سے 10 نومبر 1987 کو پارٹی کے ایک کارکن کی موت جس کے بعد سابق فوجی ڈکٹیٹر ایچ ایم ارشاد کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تھا، کی یاد میں ریلی نکالی جانی تھی۔
عوامی لیگ کے احتجاج پر بالآخر 1990 میں ایچ ایم ارشاد کی حکمرانی کا خاتمہ ہو گیا تھا، جس کے بعد اس دن کو ’جمہوریت کے دن‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔
1991 میں بنگلہ دیش نے صدارتی طرز حکومت سے پارلیمانی جمہوریت کی طرف رخ کیا اور اس کے بعد سے شیخ حسینہ واجد اور ان کی حریف سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء ملک کی سب سے طاقتور سیاسی شخصیات بن گئیں تھیں۔
اتوار کو شیخ حسینہ واجد کی اہم حریف خالدہ ضیا کی قیادت والی جماعت اور جماعت اسلامی کے کارکن ڈھاکہ کی سڑکوں پر نکل آئے اور اس علاقے کے زیادہ تر حصے کو بھر دیا جہاں شیخ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ کی ریلی ہونے والی تھی۔
سینکڑوں طلبا مظاہرین سمیت دیگر افراد نے بھی اعلان کیا کہ وہ شیخ حسینہ واجد کے حامیوں کو سڑکوں پر کھڑے ہونے اور ریلی نکالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ شیخ حسینہ واجد کی پارٹی اتوار کو سڑکوں پر ریلی نکال کر واپسی کی کوشش کر رہی ہے۔ جولائی اور اگست 2024 میں عوامی بغاوت کی قیادت کرنے والے گروپ انسداد امتیازی سلوک اسٹوڈنٹ موومنٹ کے مظاہرین نے جارحانہ انداز میں شیخ حسینہ واجد کے حامیوں کی ریلی نکالنے کی کوشش ناکام بنا دی۔
سیاسی و سماجی گروہوں اور طلبا نے ڈھاکہ میں نور حسین اسکوائر کے قریب عوامی لیگ پارٹی کے صدر دفتر کا محاصرہ کیا جہاں شیخ حسینہ واجد کے حامیوں کو ریلی منعقد کرنے کے لیے جمع ہونا تھا۔
عینی شاہدین اور مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے شیخ حسینہ واجد کے متعدد حامیوں پر اس وقت حملہ کر دیا جب انہوں نے وہاں پہنچنے کی کوشش کی اور اپنے رہنما کے حق میں نعرے بازی کی۔
عوامی لیگ پارٹی کا کہنا ہے کہ ان کے بہت سے کارکنوں کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے، انہوں نے دن بھر کارکنوں پر حملوں کا بھی الزام عائد کیا۔
اتوار کو پورا دن ڈھاکا میں کشیدگی رہی جب حسینہ مخالف مظاہرین نے کہا کہ وہ کسی بھی صورت میں شیخ حسینہ واجد کی پارٹی کو کوئی عوامی ریلی منعقد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
عوامی لیگ پارٹی نے اتوار کو فیس بک پر متعدد ویڈیوز پوسٹ کیں جن میں ان کے حامیوں کے ساتھ بدسلوکی کے مناظر دکھائے جاتے رہے۔
جنوبی ایشیائی ملک میں سیاسی افراتفری اس وقت بھی شروع ہوئی جب خالدہ ضیا کی پارٹی نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت سے فوری اصلاحات اور نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
خالدہ ضیا کی پارٹی کا ماننا ہے کہ وہ شیخ حسینہ واجد کی پارٹی کی غیر موجودگی میں نئی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائے گی جبکہ اس کے دیگر اتحادی بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔
محمد یونس کی قیادت والی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ شیخ حسینہ واجد اور ان کے قریبی ساتھیوں کی حوالگی کا مطالبہ کرے گی کیونکہ ان پر انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات ہیں جن میں بغاوت کے دوران سینکڑوں مظاہرین کے قتل کا الزام بھی شامل ہے۔