امن وامان پر 85ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود بلوچستان میں کوئی محفوظ نہیں، مولانا ہدایت الرحمان


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر و رکن اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان نے کہا ہے کہ بلوچستان میں 85ارب روپے امن وامان پرخرچ کئے جارہے ہیں لیکن عوام پھر بھی محفوظ نہیں ہیں ،صوبے میں دہشت گردی کے اتنے بڑے واقعات کے بعد بھی کوئی اپنے عہدے سے مستعفی نہیں ہوا، بڑی باتیں کرنے والوں کو اپنے اختیارات کا بخوبی علم ہے بلوچستان میں بدامنی، بے روزگاری، بارڈر کی بندش کیخلاف ۳حق دو بلوچستان تحریک کا آغاز کررہے ہیں 15 نومبر کو صوبے بھر میں مظاہرے اور 16 نومبر کو آل پارٹیز کانفرنس اور اس کے بعد طوب میں جلسہ اور اپریل میں لانگ مارچ کریں گے یہ بات انہوں نے اتوا ر کو جماعت کے صوبائی دفتر میں جماعت کے دیگر عہدیداروں ڈاکٹر عطاءالرحمن، زاہد اختر بلوچ، عبدالحمید منصوری، عبدالولی شاکر، نعیم رنداور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ بلوچستان کے حالات دن بدن بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں جماعت کے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں ریلوے اسٹیشن اور مستونگ ، دکی، گوادر، پنجگور، نوشکی واقعات کی مذمت اور شہداءکے لئے دعاءمغفرت کی ہے اور حکومت کی جانب سے 85 ارب روپے امن کی بحالی پر خرچ کرنے کے باوجود امن نظر نہیں آرہا آئے روز عوام دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں حکمران صرف مذمت ، دہشت گردوں کو نہیں چھوڑیں روایتی جملے بول کر اپنی جان چھڑا رہے ہیں ہم توقع کرتے ہیں کہ چوکیدار اور حکمران عوام کو جواب دیں کیونکہ سڑکوں ، چوراہوں اور چیک پوسٹوں پر ہماری ماﺅں بہنوں، بزرگوں اور لوگوں کی تذلیل کی جاتی ہے اور پھر حکمران اور چوکیدار اسی عوام سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کے توسط سے دہشت گردی کا خاتمہ کریں گے موجودہ صورتحال میں حکمرانوں کی کوئی سنجیدگی یا ذمہ داری نظر نہیں آرہی کہ وہ حالات کو بہتر بنائیں اس لئے ہماری جماعت حق دو بلوچستان تحریک کا آغاز کررہی ہے اور حکومت کو 26 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کررہے ہیں تاکہ صوبے کے حالات کو بہتربنانے کے لئے اس پر عمل کیا جاسکے اور 15 نومبر جمعہ کو بلوچستان بھر میں مظاہرے ہوں گے اور 16 نومبر کو آل پارٹیز کانفرنس بلائی جارہی ہے ڑوب میں جلسوں کا آغاز کریں گے اور اس کے بعد اپریل میں لانگ مارچ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے سلگتے ہوئے مسائل کے حل کیلئے ضروری ہے کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کو بازیاب، اغوا نما گرفتاریوں کا سلسلہ اور بد ترین انسانی حقوق کی پامالی بند کی جائے، سیاسی آزادی دی جائے۔اوردہشت گردی، بھتہ خوری پروان چڑھانے، شاہراہوں پر عوام کی تذلیل کرنے وا لی فورس ایف سی کو فور ی طورپر صوبے سے بے دخل اور سمندر سے ٹرالر مافیا کا خاتمہ کیا جائے، سمندری حیات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔لوکل گورنمنٹ (ڈسٹرکٹ کونسل، میونسپل کارپوریشن، میونسپل کمیٹی اور یونین کونسلز کو مالی و انتظامی اختیارات دیئے جائیں۔ڈیتھ اسکواڈاور منشیات فروش مافیا اور اغوا کاروں کی سرپرستی بند کی جائے۔نوجوان نسل کو برباد کرنے والے منشیات کے تمام اڈوں کا خاتمہ اور منشیات کی کاشت کو روکا جائے۔تمام قبائلی تنازعات کے حل کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں۔ قومی امن جرگہ تشکیل دیا جائے تاکہ تنازعات کو فوری حل کیا جاسکے۔باڈر کاروبار کو تحفظ دیا جائے چمن سے لیکر گوادر بارڈر کے تمام کراسنگ پوائنٹ کھولے جائیں آزادانہ شناختی کارڈ کے ذریعے کام کرنے دیا جائے، ٹوکن /ای ٹیگ وغیرہ کا خاتمہ کیا جائے۔کرپشن کرنے والے سیاست دان، بیوروکریسی، ججز اور جرنیلوں کا سخت احتساب کیا جائے۔ان کی لوٹی ہوئی دولت عوام پر خرچ کی جائے۔شاہراہوں پر عوام کی تذلیل بند کی جائے، چوکوں پر عوام، ماں،بہنوں کو گالی دینے کا سلسلہ بند کیا جائے۔غیر ضروری اور ناجائز چیک پوسٹوں کا خاتمہ کیا جائے (آبادی کے اندر، ہسپتال،اسکول،کھیل کے میدانوں، ڈیم اور تفریحی مقامات پرکام کرنے والے مزدورں کو تحفظ دیا جائے اور ان کا قتل عام بند کیا جائے۔صوبے میں تعلیم،صحت، پانی، بجلی گیس کی فراہمی کا خصوصی اہتمام کیا جائے، صوبے میں ہزاروں بند اسکولز اور ہسپتال کھولے جائیں۔بلوچستان میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن فوری طور پر قائم کیا جائے اور ہائیر ایجوکشن کیلئے خصوصی بجٹ مختص کیا جائے۔نوکریوں اور محکموں کی خرید وفروخت کو بند کیا جائے، میرٹ کو بحال کیا جائے۔پٹواریوں کے ذریعے لینڈ مافیا کو ہزاروں ایکڑزمین الاٹ کی گئی ہے الاٹمنٹس منسوخ کرکے زمینیں غریبوں میں تقسیم کی جائیں۔عوام کے مفادات کے خلاف ریکوڈک، سیندک اور گوادر پورٹ معاہدات منسوخ کئے جائیں۔وفاقی اداروں اور محکموں میں بلوچستان کے کوٹے پرمکمل عمل درآمد کیا جائے۔ نیوی اور کوسٹ گارڈ میں 70%فیصد ملازمیں بلوچستان کے نوجوانوں کو دیئے جائیں۔سی پیک کے تحت اسلام آباد سے کوئٹہ، کوئٹہ سے کراچی اور کوئٹہ سے گوادر تک موٹر وے بنایا جائے۔صوبائی اسمبلی، صوبائی کابینہ کو آزادانہ کام کرنے دیا جائے، عسکری ادارے اپنا آئینی کردار اداکریں، سول معاملات میں مداخلت بند کریں۔عوام کو ووٹ کا حق اورا پنا حقیقی نمائندہ منتخب کرنے کا حق دیا جائے اور عوام کی رائے کا احترام کیا جائے۔ پولیس، لیویز کی تنخواہوں کو دوگنا کیاجائے، پولیس اور لیویز کو بااختیار بنایا جائے اور ان کو وسائل فراہم کئے جائیں۔ 80ارب سالانہ پولیس اور لیویز کو دیئے جائیں۔ کمزور طبقہ، یتیم، بیواں، معذوروں کی خصوصی سرپرستی کی جائے، ان کو ملازمتیں دی جا ئیں اور ان کا ماہانہ وظیفہ جاری کیا جائے۔اور ان کی تعلیم اور علاج کے اخراجات حکومت بلوچستان ادا کریں۔مسلسل طوفانی بارشوں کی وجہ سے ہر ضلع متاثر ہوا، بلوچستان کو آفت زدہ قرار دیا جائے۔کیسکو صارفین کے بجلی کے تمام سابقہ بلز معاف کئے جائیں، بجلی کے ناجائز ٹیکس کا خاتمہ کیا جائے۔ اکبر ایکسپریس، چلتن ایکسپریس، اباسین ایکسپریس، بلوچستا ن ایکسپریس کو شروع کیا جائے۔ سی پیک فیز2 ڑوب سے گوادر تک، بلوچستان بھر میں ریلوے نظام کو شامل کیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہماری جماعت پارلیمنٹ سمیت ہر فورم پر بلوچستان کی آواز اٹھاتی رہے گی ہم آنکھیں اور اپنا منہ بند نہیںرکھ سکتے ہم جدوجہد کرتے اور آواز اٹھاتے رہیں گے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کا حل بلوچستان کو انصاف اور عزت دو حکومت بلوچستان میں لگنے والی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے اس پر تیل ڈال کرمزید بھڑکارہے ہیں بارڈر کی بندش سے 30 لاکھ لوگ بے روزگار ہیں ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں عوامی حکومت اور نمائندے اس طرح کا عوام دشمن فیصلہ نہیں کرسکتی جب تک اغواءبرائے تاوان ، ڈیتھ اسکواڈ اور بد امنی کی محافظ سرپرستی کریں گے امن قائم نہیںہوسکتا حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے ناراض نوجوانوں سے بات کریں وہ ہمارے اپنے ہیں اور آپ کے غلط فیصلوں، پالیسیوں ، اقدامات کی بدولت ناراض ہیں جب تک مخلص قیادت برسر اقتدار نہیں آتی مسائل حل نہیں ہوسکتے ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں جب چاہو احتجاج کی کال دوں اور لوگوں کا باہر نکالوں گا۔