منافعے کے لالچ نے سولر پینلز ڈیلرز کو پھنسا دیا، نقصان میں فروخت پر مجبور


سولر پینلز کی اتنی بڑی تعداد امپورٹ کرنے کے نتیجے میں سولر پینلز “سڑکوں پر پڑے نظر آئے”
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان میں اس وقت سولر پینلز کی بھرمار ہے۔ بلومبرگ این ای ایف کی رپورٹ کے مطابق سال 2024 کی پہلی ششماہی میں ملک میں چین سے 13 گیگا واٹ کے سولر پینلز درآمد کیے گئے۔ ایک پروجیکٹ ڈویلپر کے مطابق سولر پینلز کی اتنی بڑی تعداد امپورٹ کرنے کے نتیجے میں سولر پینلز ”سڑکوں پر پڑے نظر آئے“ 2023 میں پاکستان میں سولر پینلز کی تقریباً 3.5 گیگا واٹ کی مانگ تھی اور 2024 کے اوائل میں پاکستان چینی سولر برآمدات کے لیے تیسری سب سے بڑی مارکیٹ بن گئی۔
Innovo Corp کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد مجاہد نے بتیا کہ 2022 میں پاکستان کے مرکزی بینک کو ڈالر کی کمی کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ ہوا اور درآمدات پر غیر رسمی پابندی لگ گئی۔ صرف ادویات اور خوراک جیسی ضروری اشیا ہی درآمد کی جا سکتی تھیں، جس کا مطلب یہ تھا کہ تقسیم کار تقریباً نو ماہ تک سولر پینلز لانے میں ناکام رہے۔
ان پابندیوں کے باوجود، کچھ سولر پینلز درآمد کیے گئے تھے۔ عام طور پر سامان کی درآمد کے لیے امپورٹر کے بینک سے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم 2022 میں زرمبادلہ کے بحران کے دوران، ایل سی جاری کرنا محدود تھا۔ اس صورتحال نے مارکیٹ کے بڑے کھلاڑیوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کردیا۔
وطین انرجی سلوشنز کے حسین خان نے بتایا کہ پینلز کی درآمد پر براہ راست لاگت 0.15 ڈالر فی واٹ تھی تو وہ مقامی مارکیٹ میں 0.30 ڈالر فی واٹ کے حساب سے فروخت کیے جا رہے تھے، یہ ٹریڈنگ بزنس میں 100 فیصد منافع تھا۔ منافع کی شرح کو دیکھتے ہوئے ہر کوئی سولر پینلز کا آرڈر دینے لگا۔ وہ کمپنیاں جو چاول بھی ایکسپورٹ کررہی تھیں، اس کاروبار میں کھود پڑیں۔ مثلاً انہوں نے چاول ایکسپورٹ کیا اور اب وہ اپنا ڈالر دوسرے ممالک سے واپس لاسکتے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے سولر پینلز کی تقسیم میں نمایاں اضافہ ہوگیا۔
محمد مجاہد نے بتایا کہ سولر پینلز کی فروخت مسئلہ نہیں رہی تھی اور اس کے لیے کوئی تجربہ ضروری نہیں تھا، مطلب یہ کہ آپ گریڈ اے کی پیداواری کمپنیوں سے سولر پینلز امورٹ کریں اور انہیں مقامی مارکیٹ میں فروخت کردیں یہ کوئی مشکل بات نہیں تھی۔
2024 میں سولر پینلز کی غیرمعمولی تعداد کے باعث منافع کی شرح انتہائی کم ہوگئی اور بعض صورتوں میں سولر پینلز خسارے میں فروخت کیے جانے لگے۔
محمد مجاد نے بتایا کہ امید نہیں تھی کہ سولر پینلز کی مارکیٹ سے اتنی تیزی سے لوگ باہر نکل جائیں گے، میرا خیال تھا کہ 6 ماہ یا ایک سال لگتے کیونکہ سرمایہ داروں نے اس صنعت سے غیرمعمولی پیسہ بنایا۔
مقامی ڈویلپرز کے مطابق شمسی توانائی میں سرمایہ کاری تجارتی اور صنعتی سیکٹر سے آئی، جس میں ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیاں فوٹو وولٹک (پی وی) ٹیکنالوجی میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ حسین خان نے کہا، ”ہر کوئی جس کے پاس سرمایہ ہے وہ سولر کی طرف جا رہا ہے۔“
وطین انرجی سلوشنز نے گزشتہ 18 مہینوں میں 30 میگاواٹ کے سولر پینلز نصب کیے اور 2025 میں تقریباً 50 میگاواٹ کی تنصیب کا ارادہ رکھتی ہے۔خان کے مطابق سولر پینلز سسٹم ایک ”سیدھی سادی سرمایہ کاری“ ہے کیونکہ وہ عام طور پر 18 ماہ سے دو سال کے اندر سرمایہ کاری پر منافع (آر او آئی) ملنا شروع ہوجاتا ہے۔
ان کے مطابق اگر نیٹ میٹرنگ کم منافع بخش ہو جائے تب بھی شمسی توانائی ایک اچھی سرمایہ کاری ہو گی کیونکہ پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے مطابق کرنسی کی قدر میں کمی، طلب میں کمی، زیادہ ترسیل اور تقسیم کے نقصانات، چوری، مانگ کے اتار چڑھاؤ، قانونی تنازعات اور ناقص گورننس سمیت مختلف عوامل کی وجہ سے بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ فار انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل اینالیسس (آئی ای ای ایف اے) کی انرجی فنانس اسپیشلسٹ حنیہ اساد نے بتایا کہ آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے طویل مدتی معاہدوں سے نکلنا مشکل ہے، جو 25 سے 30 سال تک چلتے ہیں، کیونکہ یہ قانونی طور پر پابند ہیں۔ جب 1990 اور 2000 کی دہائی کے اوائل میں ان معاہدوں پر دستخط کیے گئے تو پاکستان کو توانائی کی نمایاں کمی کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے پرکشش شرائط پیش کیں۔ بدقسمتی سے، پاور سیکٹر اس وقت سے زیادہ ترقی نہیں کرسکا ہے، اور سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے اب بھی اسی طرح کی ترغیبات درکار ہیں۔
شمس پاور کے چیف ایگزیکٹو عمر ایم ملک کے مطابق ان کی کمپنی پاکستان میں کمرشل اینڈ انڈسٹریل (سی اینڈ آئی ) کلائنٹس کے ساتھ بجلی کی فراہمی کے معاہدے پر دستخط کرنے والی پہلی کمپنی ہے، شمس پاور ملک میں 40 میگاواٹ کے قریب شمسی توانائی کی پیداواری صلاحیت کی مالک ہے اور یہ توانائی صارفین کو ایک طے شدہ نرخ پر فراہم کرتی ہے۔
انہون نے مزید بتایا کہ “ہمارا کاروباری ماڈل یہ ہے کہ ہم سب کچھ کرتے ہیں۔ ہم اس منصوبے کی مالی اعانت کرتے ہیں، ہم اسے تعمیر کرتے ہیں، ہم اسے چلاتے ہیں، اور یہ معاہدہ 15 سے 20 سال پر مشتمل ہوتا ہے اور ہم اپنے کو گرڈ کی قیمت پر رعایت دے کر بجلی فراہم کرتے ہیں، بعض صورتوں میں ہمارے صارفین کو 70 فیصد تک کی رعایت بھی مل رہی ہے۔
پاکستانی حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ نجی شعبہ شمسی توانائی کی صلاحیت کو تیز رفتاری سے استعمال کرنے کا خواہاں ہے، لیکن اس سے صلاحیت کی ادائیگی کے مسائل بڑھنے کا خطرہ بھی موجود ہے۔
قابل تجدید ذرائع اور گرڈ انٹیگریشن ماہر سید فیضان علی شاہ نے بتایا کہ غیر محدود شمسی توانائی کی پیداوار کی اجازت دینے سے پاکستان کی بجلی کی مارکیٹ میں خلل پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ کمرشل اینڈ انڈسٹریل سیکٹر سے گرڈ کی ادائیگیوں میں تیزی سے کمی آنے سے مرکزی یوٹیلیٹیز پر مزید مالی دباؤ پڑ سکتا ہے۔ یہ چیلنجز حکومت کے لیے ایک اہم غور و فکر کی حیثیت رکھتے ہیں، کیونکہ انہیں شمسی توانائی کے فروغ کے ساتھ ساتھ مارکیٹ کی استحکام کو بھی برقرار رکھنا ہے۔