اسموگ تدارک کیس؛ تعلیمی ادارے بند ہیں تو پھر تعمیرات کیوں بند نہیں ہو رہی، لاہور ہائیکورٹ


عدالت نے کوئی حکم نہیں دیا کہ مارکیٹس 8 بجے بند کی جائیں، جسٹس شاہد کریم کے ریمارکس
لاہور(قدرت روزنامہ)اسموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ حکم دیا تھا ان دو ماہ میں کوئی تعمیراتی کام نہیں ہوگا اس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہو رہا؟ تعلیمی ادارے بند ہیں، سب کچھ سامنے ہیں تو تعمیرات کیوں بند نہیں ہو رہی۔
جسٹس شاہد کریم نے اسموگ سے متعلق کیس پر سماعت کی۔ واسا کے سینیئر لیگل ایڈوائزر میاں عرفان اکرم ایڈووکیٹ جبکہ متعلقہ محکموں کے افسران اور لاء افسران عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس میں کہا کہ ہر ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کی ڈیوٹی لگائی جائے کہ سڑک پر نکل کر ڈیوٹی کریں، سی سی پی او اور ڈی آئی جی جب کام کے لیے نکلیں تو ساتھ یہ بھی دیکھ لیں۔
اسموگ کے تدارک کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت شروع ہوئی تو پنجاب حکومت نے اقدامات سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ وکیل پنجاب حکومت نے بتایا کہ لاری اڈوں اور ٹرک اسٹینڈ پر انتظامیہ خود جا کر انسپکشن کرے گی، بند روڈ پر تین بڑے ٹرمینلز پر کریک ڈاون کیا گیا، 400 گاڑیوں کو چیک کیا گیا۔
جسٹس شاہد کریم نے سوال کیا کہ 400 گاڑیوں کی انسپکشن کے نتیجے میں کتنی گاڑیاں ٹھیک حالت میں نہیں تھی؟ وکیل پنجاب حکومت نے جواب دیا کہ 42 گاڑیاں انسپکشن میں فیل ہوئی ہیں، پنجاب کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو انسپکشن کے لیے مطلع کر دیا گیا ہے، کل چونکہ اتوار تھا اس لیے سیکریٹری ٹرانسپورٹ ہدایات جاری نہیں کر سکے۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ کیا بات کر رہے ہیں، حالت دیکھیں باہر، ایک ایک منٹ بہت ضروری ہے، میں تو اتوار کو بھی یہ کیس سننے کو تیار ہوں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کہاں ہے؟ عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ معاملے کی سنجیدگی کا اندازہ لگا لیں ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ عدالتی کارروائی سننے بھی نہیں آیا۔
وکیل پنجاب حکومت نے بتایا کہ لاہور کے تین بس اسٹینڈ پر آپریشن کیا گیا اور 60 دھواں چھوڑنے والی بسوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی کمشنر لاہور کا کیا کام ہے، اتوار کو بیٹھ نہیں سکتے تھے کیا، ایڈووکیٹ جنرل کی میٹنگ میں کیا طے ہوا، آپ مجھے بولتے تو میں اتوار کو عدالت لگا لیتا۔
ممبر جوڈیشل کمیشن نے کہا کہ صرف سڑکوں پر بسوں کو بند کر دینا حل نہیں ہے، ایسی بسوں کو بس اسٹینڈ سے نکلنے ہی نہ دیا جائے۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ اسموگ کے اس سیزن میں ذمہ داران شہر میں موجود نہیں ہیں، میں تفصیل میں جانا نہیں چاہتا، جب عدالت میں حکومت کی بائیکس فراہم کرنے کی پالیسی پر آڈر کیا گیا تو حکومت کے لوگوں نے ہنسنے والے ریمارکس دیے، کیا اب کوئی جواب ہے آپ لوگوں کے پاس؟
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب آج عدالت میں موجود نہیں ہیں، یہ سب سے اہم معاملہ ہے، آج انہیں عدالت میں ہونا چاہیے تھا، میں بہت مایوس ہوا ہوں۔ عدالت نے وکیل پنجاب حکومت سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ان تک میری ناراضی پہنچائیں۔
جسٹس شاہد کریم نے سوال کیا کہ بس اسٹینڈ پر گاڑیوں کو چیک کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟ وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ گاڑیوں کا دھواں چیک کیا جاتا ہے۔ جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ ٹرانسپورٹ محکمے سے کوئی عدالت میں نہیں ہے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عدالت میں موجود نہیں ہے، یہ اس طرح حکومت معاملے کو سیریس لے رہی ہے؟
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم دو سال سے اسموگ کے حوالے سے احکامات دے رہے ہیں کیا محکمہ ٹرانسپورٹ سویا ہوا تھا، اسموگ کنٹرول کرنے کے حوالے سے اقدامات کرنے میں حکومتی محکمے ناکام ہیں، دو ماہ پہلے اسموگ کی صورتحال ابتر ہو چکی ہے۔ ہمارے بچے ہم سب کی زندگیوں کا معاملہ ہے لیکن ادارے ٹھیک سے کردار ادا نہیں کر رہے، جب آپ نے بائیکس کا اعلان کیا اور میں نے آرڈر پاس کیا تو سب نے باتیں کیں، اب باہر جا کر صورتحال دیکھیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ چیف سیکریٹری پنجاب کہاں ہیں؟ اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے بتایا کہ وہ جینیوا میں ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایکٹنگ چیف سیکریٹری کہاں ہے اور یہ صوبہ چل کیسے رہا ہے۔ لاہور میں بہت سی جگہوں پر تعمیرات ہو رہی ہیں، تعمیرات کا ہونا اسموگ کی سب سے بڑی وجہ ہے، اسکول بند کروا دیے ہیں، تعمیرات ہی بند کروا دیتے، کیا کوئی آرڈر موجود ہے کہ ڈپٹی کمشنر کیا کام کریں گے؟ یا ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے حوالے سے ایسا کوئی آڈر موجود نہیں ہے۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ فصلوں کی باقیات جلائی جا رہی ہیں، کیا حکومت کو نہیں معلوم تھا کہ چاول کی فصل کے بعد فصلوں کی باقیات جلائی جائیں گی؟ روڈا کو چھوڑ دیں، اگر روڈا بنائیں گے تو کون اس شہر میں رہے گا، اگر لاہور کا ماسٹر پلان کالعدم قرار نہ دیا جاتا تو معلوم نہیں کیا ہو جانا تھا، اسموگ کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں ہوئے۔ پنجاب حکومت کے وکیل سے عدالت نے استفسار کیا کہ اس وقت پنجاب میں ایمرجنسی ہے آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے۔
عدالت نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ درختوں کی کٹائی کی وجہ سے ملتان اسموگ میں پہلے نمبر پر آ چکا ہے، دو دن ’’ورک فرام ہوم‘‘ کے حوالے سے بھی حکومت کو اقدامات کرنے کا کہا تھا لیکن کچھ نہیں کیا گیا۔ عدالت نے کوئی حکم نہیں دیا کہ مارکیٹس 8 بجے بند کی جائیں، میں نے یہ آپ لوگوں پر چھوڑ رکھا ہے کہ آپ میٹنگ کریں اور جو مناسب ہے کریں، ہم نے کہا تھا کہ ہفتے میں دو دن ورک فرام ہوم کریں، کب کریں گے آپ لوگ، آپ لوگ کر کیا رہے ہیں۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ یہ ڈی جی ماحولیات سے بہت اوپر کی بات ہے، پوری حکومتی مشینری کو اس پر ایکشن لینا ہوگا، میں نے ملتان میں رپورٹ کر کے چار بھٹے بند کروائے، اگر ضلع کا ڈپٹی کمشنر شہر کا ایک چکر لگائے تو اسے یہ سب نظر آ جائے گا، مجھے کل کوئی ایک بھی ٹریفک اہلکار نہیں نظر آیا جو اسموگ کے حوالے سے گاڑیوں کو چیک کر رہا ہوں۔
اپنے ریمارکس میں جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ حکومت پنجاب بھر کے ڈی سی اور اے سیز کی ڈیوٹی لگائے اور کہے کہ اپنے آفسز سے نکل کر سڑکوں پر چیکنگ کریں، کیا حکومت نے کوئی نوٹیفکیشن جاری کیا ہے کہ اگر گاڑی کی فٹنس ٹھیک نہیں ہے تو اسے ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ 1500 سے 2 ہزار روپے جرمانے سے حالات نہیں بدلیں گے، جو ضروری اقدامات ہیں اور نوٹیفیکشن ہیں وہ حکومت کرے، کنسٹرکشن بند کرنے کے لیے حکومت سنجیدگی سے سوچے۔ کل دوبارہ اس کیس کی سماعت ہوگی، میں نے شادی حال کے حوالے سے آڈر کیا تھا، اس کا کیا بنا؟ ممبر جوڈیشل کمیشن نے بتایا کہ اس پر کچھ عمل درآمد نہیں ہوا۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ میں پر امید تھا کہ موجودہ حکومت اس حوالے سے بہتر کام کرے گے مگر ان کے اقدامات کافی نہیں، میں کوئی آڈر نہیں کر رہا، میں صرف یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ حکومت کیا کرتی ہے، آپ کو جاری تعمیرات کے حوالے سے فیصلہ کرنا ہوگا۔
عدالت نے مختلف محکموں سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 12 نومبر تک ملتوی کر دی۔