پی آئی اے کا 10 سال سے آڈٹ نہ ہوا، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں اور کیا انکشافات سامنے آئے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)قومی ایئرلائنز (پی آئی ے) کا 10 سال سے آڈٹ نہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جس پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ہوا بازی نے متعلقہ حکام سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
چیئرمین نوابزادہ افتخار کے زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ہوا بازی کے اجلاس کے دوران پی آئی اے کے آڈٹ نہ ہونے کے انکشاف پر پی آئی اے کے سی ای او ایئر وائس مارشل عامر حیات نے کمیٹی کو بتایا کہ بین الاقوامی ہوابازی قونین کے مطابق آڈٹ ضروری ہے، کراچی کریش واقعہ کے بعد آڈٹ نہ ہونا سامنے آیا۔
سی ای او پی ائی اے نے مزید بتایا کہ پی آئی اے کا آڈٹ نہ ہونا بھی یورپ میں آپریشنز پر پابندی کی ایک وجہ ہے، حیرت ہے کہ 10 سال ایک ادارے کا آڈٹ نہیں ہوا اور کوئی پوچھنے والا نہیں، سب نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں، اس کا ذمہ دار کون ہے۔
سی ای او پی ائی اے نے کہا کہ ایئرلائن کا آڈٹ کرنا آئیکا ( انٹرنیشنل سول اوی ایشن اتھارٹی) کا کام ہے، ہم آئیکا کو خط لکھیں گے کہ بتائیں 10 سال تک آڈٹ کیوں نہیں ہوا، آڈٹ نہ کروانے کے ذمہ داروں کا تعین ہونا ضروری ہے۔
’10 سال میں 4 ہوائی جہاز کریش ہوئے‘
اس موقع پر سیکریٹری ہوا بازی احسن علی منگی نے کہا کہ آڈٹ ہر 2 سال بعد ہونا چاہیے، اس طرح ساری خامیاں دور ہوجاتی ہیں، کمیٹی اگر سفارش کرے تو معلوم کریں گے کہ 10 سال تک آڈٹ کیوں نہیں ہوا، میں جب سیکریٹری بنا تب میں نے بھی یہی سوال کیا تھا۔
سیکرٹری ہوا بازی احسن علی منگی نے مزید کہا کہ 10 سال کے دوران 4 کریش کے واقعات ہوئے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ آئندہ اجلاس میں پی آئی اے کا آڈٹ نہ ہونے پر رپورٹ جمع کرائی جائے۔
برطانیہ میں ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی سے کتنا خسارہ ہورہا ہے؟
دوران اجلاس کمیٹی کے رکن رمیش لال نے سوال اٹھایا کہ برطانیہ میں پی آئی اے کا آپریشن 2020 سے بند ہے، 2020 سے اب تک جو ملازمین وہاں موجود ہیں ان پر کتنا خرچا ہورہا ہے، پی آئی اے کو برطانیہ میں موجود ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنےسے کتنا خسارہ ہورہا ہے۔
رمیش لال کے سوال پر سیکریٹی ہوابازی نے کمیٹی کو بتایا کہ پی آئی اے کی نجکاری کی وجہ سے ٹرانسفر، تنخواہوں میں اضافہ سمیت تمام تر معاملات روکے ہوئے ہیں، بیرون 76 ملازم موجود ہیں جن میں سے 26 ملازمین کو واپس بلا رہے ہیں، باقی رہ جانے والے 50 ملازمین ایسی جگہ تعینات ہیں جہاں آپریشنز فعال ہیں۔
چند ماہ میں یورپ کے لیے فلائیٹ آپریشنز بحال ہوجائیں گے؟
سیکریٹری ہوا بازی نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ آئندہ چند ماہ میں یورپ کے لیے پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن بحال ہوجائے گا، آپریشن معطلی ختم کرنے کے لیے کوششیں کررہے ہیں، یورپین سفیٹی ایجنسی نے پاکستان کی 2 ایئر لائنز کے آڈٹ مکمل کر لیے ہیں، پی آئی اے کا آڈٹ 30 اکتوبر اور ایئر بلیو کا آڈٹ 11 نومبر کو ہوا ہے، رواں ماہ یورپین سیفٹی ایجنسی کا اجلاس ہے، امید ہے اچھی خبر آجائے گی۔
پی آئی کے پاس فعال طیاروں کی تعداد کتنی؟
کمیٹی اجلاس کے دوران پی آئی اے کے پاس دستیاب فعال طیاروں کی تعداد کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ اس حوالے سے سی ای او پی آئی اے نے کمیٹی کو بتایا کہ پی آئی اے کے پاس فعال بوئنگ 777 طیاروں کی تعداد 5 ہے، حج سے قبل بوئنگ 777 کی تعداد 7 کردیں گے، کورونا کے دوران بوئنگ 777 جہازوں کی تعداد 12 تھی۔
بیرون ملک سے میتوں کی واپسی پر پیسے کیوں چارج ہورہے ہیں؟
دوران اجلاس، کمیٹی کے ایک رکن نے کہا کہ ماضی میں بیرون ملک سے میت پی ائی اے کے ذریعے مفت لائی جاتی تھی، ترکش ائیر لائنز کے ساتھ معاہدے کے بعد سے پیسے چارج کیے جارہے ہیں، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو سہولت پہنچانے کے لیے ترکش ائیر لائنز سے بات کی جائے، جس پر سی ای او پی آئی اے نے بتایا کہ میت کو مفت پاکستان لانے کے لیے ترکش ائیر لائنز سے بات چیت جاری یے۔
پائلٹس کے جعلی لائسنس کا معاملہ
اجلاس میں ڈی جی سی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے بتایا کہ 83 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا شبہ تھا جس کے بعد 50 پائلٹس کے لائسنس منسوخ کردیے تھے، ایف ائی اے جعلی لائسنس کی تحقیقات کررہی، وفاقی کابینہ کی منظوری سے پائلٹس کے لائسنس منسوخ کردیے تھے۔
اس موقع پر رکن کمیٹی مہرین بھٹو نے تجویز پیش کی کہ پائلٹس کے جعلی لائسنسز سے متعلق بریفنگ ان کیمرا لی جائے، جس پر چیئرمین کمیٹی نوابزادہ افتخار نے آئندہ ہفتے اس معاملے پر ان کیمرا بریفنگ کا حکم دیا۔
اسلام آباد ایئرپورٹ کا نیا نام
اجلا میں اسلام آباد ایئرپورٹ کے نئے نام کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ 13 اکتوبر 2022 کو اسلام آباد ائیرپورٹ کا نام محترمہ بینظیر بھٹو شہید رکھنے کی قرارداد منظور کی گئی تھی، قومی اسمبلی 24 کروڑ عوام کی نمائندگی کرتی ہے، محترمہ بینظیر بھٹو شھید 2 مرتبہ وزیراعظم رہیں، وزارت ہوا بازی قومی اسمبلی کی قرارداد پر عمل نہیں کر رہی۔
سیکریٹری ہوا بازی نے کمیٹی کا بتایا کہ ایئرپورٹ کا نام تبدیل کرنا کابینہ ڈویژن کا کام ہے۔ جس پر رکن کمیٹی مہرین بھٹو نے کہا کہ کمیٹی کی طرف سے وزیر اعظم کو نام تبدیلی کے لیے خط لکھنا چاہیے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ نام کی تبدیلی نہ ہونے پر اسمبلی میں احتجاج کرنا چاہیے۔