کوئٹہ(قدرت روزنامہ)بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی اعلامیہ میں نیشنل پارٹی کے بیان کو کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پارٹی بیان میں حقائق بیان کئے گئے تھے ان کا جواب دینے سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے لغوی باتوں کا سہارا لیا گیا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہماری سچائی پر مبنی باتوں کو غلط ثابت کرتے لیکن چونکہ تمام تر حالات و واقعات حقیقت پر مبنی اور عوام بھی ان سے بخوبی آگاہ ہیں آج جو ہمیں درس دیتے ہیں کہ موجودہ حالات میں بلوچ قوم متحد منظم کیا جائے جو بارہا وقت و حالات کی ضرورت بھی ہے مگر آج سے گیارہ ماہ قبل جب پارٹی قیادت نے حالات کی نزاکت کو جانتے ہوئے نیشنل پارٹی کو بلوچ قومی مفادات ، لاپتہ افراد کی بازیابی سمیت تمام جملہ مسائل پر یکجا ہو کر ایک پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کی دعوت دی مگر انہوں نے ماضی کی طرح ایک بار پھر قلا بازی کھائی2013میں بھی دبئی جا کر پارٹی قائد سے ملے اور متحد ہو کر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا گیالیکن انتخابات سے چند روز قبل انہوں نے نہ جانے کن کے کہنے پر اتحاد نہ کرنے کا اعلان کیا بی این پی سیاسی نظریاتی ، قومی فکری جماعت ہے پارٹی کی دہائیوں پر محیط جدوجہد ، قربانیاں عیاں ہے پارٹی اپنے منشور قائم رہ کر ہی حقیقی سیاست کر رہی ہے جنرل مشرف کے دور میں جب علی اصغر بنگلزئی لاپتہ ہوئے ، بلوچستان میں پانچواں آپریشن کا آغاز ہوا ، انسانی حقوق کی پامالی ، بلوچ نسل کشی ، مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا عمل شروع ہوا تو پارٹی اپنی جدوجہد کر تی رہی نیشنل پارٹی کے دور میں مسخ شدہ لاشیں ، لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ زور پکڑنے لگا پارٹی پر اربوں کے کرپشن کے الزامات لگانا مضحکہ خیز ہے کرپشن تو وہ سے کہ ایک ٹینکی سے اربوں روپے برآمد ہوئے نام نہاد قوم پرستی کے دعویداروں نے مری معاہدہ کیا تھا وہ خالصتا ذاتی مفادات اور اقتدار کے حصول کیلئے تھا جو بعد میں ثابت بھی ہوا اگر کوئی چلتن پہاڑی پر بیٹھ کر دیکھتا تو وہ بلوچستان کی تاریخ کی بدترین کرپشن جو کھربوں روپے میں ہوئی جسے آج تک ٹینکی ، بیکری لیکس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے دیکھ سکتا تھا لیکن اس دور کے وزیراعلی کو اپنے ناک کے نیچے ہونے والی کھربوں کی کرپشن دکھائی نہیں دی بلوچستان نیشنل پارٹی اگر پی ٹی آئی حکومت کی حمایت کی اور وزارتیں نہیں لیں اس وقت معاہدہ میں سر فہرست بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی ، جملہ بلوچ مسائل کے حل کی خاطر تھی قومی اجتماعی مسائل کا حل سرفہرست تھے تحریک انصاف حکومت میں 490افراد سے زائد بلوچوں کی بازیابی ہماری بہت بڑی کامیابی ہے ماں بہنوں کے دکھوں کا کسی حد تک مداوا کر سکے اسی طرح پی ٹی آئی حکومت میں بلوچستان کے پسماندہ ترین علاقوں کیلئے فنڈز رکھے توکوئٹہ ، خضدار ، رخشان ڈویژن میں ڈیمز ، گرڈ اسٹیشنز ، گرلز کالجز ، سکولز ، لائبریریز ، سڑکیں ، آبنوشی ، بجلی وسولر اسکیمات دیں جو زمین پر موجود ہیں پی ڈی ایم حکومت میں ملنے والے فنڈز سے کوئٹہ ، خضدار ، چاغی ، آواران سمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع میں ترقیاتی منصوبے شروع کئے جو نظر بھی آتے ہیں جن میں کچھ ترقیاتی منصوبے تعمیر کے آخری مراحل میں ہیں انسانی بنیادی سہولیات کی فراہمی کی جتنی کوششیں تھی ہم نے کیں نیشنل پارٹی کے دور حکومت میں کرپشن کے سوا گرانڈ پر کچھ نظر نہ آیا بیان میں کہا گیا کہ جب پارٹی نے محسوس کیا کہ پی ٹی آئی کی لاپتہ افراد کی مزید بازیابی میں دلچسپی باقی نہیں رہی اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کو روک نہیں پا رہی تو پارٹی نے اپنی راہیں علیحدہ کر لیں اور پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک چلی تو اس میں نیشنل پارٹی بھی پی ڈی ایم کا حصہ تھی ان کے سینیٹرز اس دور حکومت میں بھی تمام تر مراعات وفنڈز کیلئے کوشاں رہے بیان میں کہا گیا کہ بی این پی تحریک انصاف کے دور میں آزاد او ر پی ڈی ایم حکومت کا حصہ تھی تو پارٹی کے اراکین نے وفاقی کابینہ میں بلوچ سرزمین کے وسائل ، لاپتہ افراد ، آپریشن ، مظالم ، چادر وچار دیواری کے تقدس کی پامالی ، ڈیتھ سکواڈ کی غنڈہ گردی کے حوالے سے آواز بلند کی جہاں نیشنل پارٹی سجدہ ریز ہوتی ہے ان کے سامنے بھی پارٹی نے بلوچستان کا مقدمہ غیرمتزلزل انداز میں پیش کیا پی ڈی ایم میں وزیراعظم شہباز شریف نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کمیٹی تشکیل دی جس میں ہم نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کوششیں کیں پارٹی قائد نے2018سے 2023تک اسلام آباد کے ایوانوں میں بلوچستان کا مقدمہ لڑا جو آج بھی قومی اسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ ہے بلوچستان کے اکابرین کے بعد سردار اختر جان مینگل واحد رہنماہیں جنہوں نے پانچ سالہ پارلیمانی دور میں خاموش کی بجائے بلوچستان کا مدعا بیان کیا بی این پی کے سامنے بلوچ اتحاد یکجہتی اہمیت کی حامل ہے لیکن ہم اس اتحاد کے قائل ہیں جو بلوچ وسیع تر مفادات کی خاطر ہو نہ کہ ذاتی مفادات کیلئے ہو آج بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے نیشنل پارٹی بلواسطہ یا بلاواسطہ ان حالات میں بھی ذمہ دار ہے فارم 47کے حکمرانوں کی برملا حمایت بھی نیشنل پارٹی نے کی چار جماعتی اتحاد چلیں آپ نے بنائی مگر عین انتخابات میں چار جماعتی اتحاد کے صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی کو ووٹ نہیں دیا جو حقیقی قلابازی ہے26آئینی ترمیم سمیت حالیہ بلز کی منظوری میں چپ کا روزہ رکھنے پر تاریخ انہیں معاف نہ کرے گی بیان میں کہا گیا کہ نیشنل پارٹی ماضی کے معاہدوں میں نمائندہ بلوچستان نہیں بلکہ گواہ کی حیثیت سے پیش ہوتی رہی بلوچستان میںآپریشن کی تائید وحمایت کرنا اور موجودہ نام نہاد دور میں تمام آمرانہ آئینی ترامیم کا حصہ بننا ان کا وطیرہ ہے بی این پی کی پالیسی واضح ہے اور ثابت قدم ہو کر جدوجہد کر رہی ہے – . .