کوئٹہ کے باسی دیگر شہروں کے سفر سے کیوں گریز کر رہے ہیں؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)گزشتہ ہفتے بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن پر خودکش دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں 28 افراد جان حق جبکہ 60 سے زائد زخمی ہوئے جبکہ اگست میں موسیٰ خیل کے مقام پر لوگوں کو بسوں سے اتار کر قتل کیا گیا تھا جس کے بعد سے عوام خصوصاً سفر کے دوران ایک خوف کا شکار ہیں۔
سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر حکومت نے 4 روز کے لیے ٹرین سروس کو معطل کیا تھا۔ اس سے قبل رواں سال اگست کے ماہ میں موسیٰ خیل کے مقام پر کالعدم تنظیم کی جانب سے ناکہ لگا کر شناخت کی بنیاد پر لوگوں کو بسوں سے اتار کر قتل کیا گیا۔
ان واقعات کے بعد شاہراہیں اور ریلوے اسٹیشن غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے کوئٹہ کے باسی پریشانی میں مبتلا ہیں کہ آخر دیگر صوبوں کی جانب کیسے سفر کیا جائے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کوئٹہ میں حجام کے کام سے 20 برس سے منسلک اعجاز احمد نے بتایا کہ وہ سال میں میں 2 سے 3 بار لاہور اپنے اہل خانہ کے پاس جاتے ہیں لیکن اب دہشتگردی کے پے درپے واقعات کے بعد پورا سال ہونے کو ہے وہ کوئٹہ میں ہی محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔
اعجاز احمد نے کہا کہ میں ستمبر میں گھر جانے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن نہیں جاسکا کیوں کہ اگست میں بسوں سے شناخت کی بنیاد پر اتار کر لوگوں کو قتل کردیا گیا تھا اور اس کے علاوہ ریلوے کے پل کو کولپور کے مقام پر اڑادیا گیا جس کی وجہ سے تقریباً ڈیڑھ سے 2 ماہ ٹرین سروس معطل رہی۔
انہوں نے کہا کہ اب دوبارہ جانے کا ارادہ کیا تو ایک بار پھر ریلوے اسٹیشن پر دھماکہ ہو گیا اب غریب انسان بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے ہی سفر کرنے کی سکت رکھتا ہے ایسے میں اگر دونوں ذرائع آمدورفت غیر محفوظ ہو جائیں تو غریب کیا کرے۔
اعجاز احمد سمیت دیگر علاقوں میں کام کی غرض سے آئے افراد کا بھی یہی کہنا ہے اور ان کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ سیکیورٹی صورتحال کو بہتر بنایا جائے۔
دوسری جانب ٹرانسپورٹرز کا مؤقف ہے کہ مسافر بسوں اور ٹرکوں کو جلائے جانے کے واقعات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے جس سے بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے جبکہ حکومت اس پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ بڑھتی بدامنی اور دہشتگردی کے واقعات کی وجہ سے لوگ بسوں پر سفر کرنے سے گریزاں ہیں جس کی وجہ سے بس مالکان اکثر دن کے اوقات میں ہی بسوں کو بلوچستان سے روانہ کرتے ہیں تاکہ کسی قسم کا جانی نقصان نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لوگ اپنے اپنے علاقوں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ صوبے میں قیام امن کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔