کیا عام پاکستانی کو بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی رسائی کے لیے وی پی این رجسٹریشن کروانی ہوگی؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے انٹرنیٹ پر دستیاب مفت ورچوئل پرائیوٹ نیٹ ورکس (وی پی این) سروسزختم کرتے ہوئے صارفین کے لیے اس کے استعمال کے لیے رجسٹریشن کی شرط لازمی قرار دے دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ وی پی این کی بندش کی شکایت سامنے آنے کے بعد پی ٹی اے نے وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے صارفین کے لیے ہدایات جاری کیں کہ سافٹ ویئر ہاؤسز، کال سینٹرز، فری لانسرز اور غیرملکی سفارت خانوں کے لیے قانونی، محفوظ اور بلا تعطل آپریشنز کے پیش نظر وی پی این رجسٹریشن کا عمل ون ونڈو آپریشن کے تحت پی ٹی اے اور پی ایس ای بی کی ویب سائٹس پر مفت دستیاب ہے۔
پی ٹی اے کی جانب سے کچھ شعبوں کے افراد کے لیے رجسٹریشن کی مفت سہولت مہیا کی گئی ہے لیکن وہ لوگ جو پروفیشنل نہیں ہیں یا پھر وہ جن کا تعلق ان شعبوں سے نہیں وہ کیسے رجسٹریشن کروا سکتے ہیں؟
اس حوالے سے پی ٹی اے کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن ملاحت عبید نے بتایا کہ یہ سہولت صرف کارپوریٹ سیکٹر کے لیے ہے۔
ملاحت عبید نے کہا کہ انفرادی سطح پر وی پی این کی رجسٹریشن کروانے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیوں کہ یہ سہولت صرف پاکستان میں بزنس کمیونٹی کے لیے ہے تاکہ کسی بھی غیر معمولی صورتحال میں پاکستان کا وہ طبقہ جو پاکستانی معیشت میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے متاثر نہ ہو۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم تک رسائی میں تو کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش تو اس وقت ہوتی ہے جب حکومت کی جانب سے کسی بھی غیر معمولی صورتحال کی بناپر بند کرنے کو کہا جاتا ہے جیسا کہ 9 مئی اور پھر الیکشن کے دوران کچھ سوشل میڈیا پلیٹ فارم بند کر دیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی صورتحال میں پاکستان کا بزنس سیکٹر متاثر ہوتا ہے اس لیے جب حکومت کی طرف سے بندش کا کہا جاتا ہے تو اس وقت اگر ان بزنس سیکٹرز کے پاس وی پی این کی رجسٹریشن ہوگی تو اس آرگنائزیشن کو تمام ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی حاصل ہوگی جس سے کسی قسم کا معاشی نقصان نہیں ہوگا اور نہ ہی ان کے کام میں خلل آئے گا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی اے کسی قسم کا کوئی وی پی این بلاک نہیں کر رہی اور عوام وی پی این کا استعمال کر رہی ہے تو وہ سلسلہ چلتا رہے گا لہٰذا انفرادی سطح پر بھی اس قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
ملاحت عبید نے کہا کہ رواں برس اکتوبر تک 20 ہزار کمپنیاں پی ٹی اے کے ذریعے وی پی این کی رجسٹریشن کروا چکی ہیں جن میں کچھ نیوز چینلز، سفارتخانے بھی شامل ہیں اور پاکستان میں روزانہ 100 ملین سے زائد وی پی این کنکشنز قائم کیے جاتے ہیں تاہم ایک فرد متعدد کنکشنز بھی قائم کر سکتا ہے۔
چئیرمین پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن سجاد مصطفیٰ نے بتایا کہ ان کی تنظیم پی ٹی اے سے وی پی این کی فہرست سازی اور رجسٹریشن کے حوالے سے رابطے میں تھی اور اتوار کی شام انہیں پی ٹی اے کی جانب سے بتایا گیا کہ یہ ایک تکنیکی مسئلہ تھا جو حل کر لیا گیا ہے۔
سجاد مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ پاکستان سافٹ ویئر ہاوسز ایسوسی ایشن نے اپنی تمام ممبر کمپنیوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ وی پی این کو رجسٹر کرائیں۔
سجاد مصطفیٰ نے کہا کہ حالیہ وی پی این آؤٹج سے جو نقصان ہوا ہے وہ اتنا زیادہ نہیں ہے لیکن اگر یہ آؤٹج طویل عرصے تک جاری رہی اور مسلسل ہوتی رہی تو بین الاقوامی گاہک ہماری مصنوعات سے بیزار ہو جائیں گے اور اس سے یہ تاثر جائے گا کہ ہمارے پاس پائیدار انفراسٹرکچر نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت نئی پالیسیوں کو نافذ کرنے سے پہلے انڈسٹری کو اعتماد میں لینا چاہتی ہے اور پالیسیوں کی تیاری میں مشاورت کرے تو ہم حکومت کو ایک روڈ میپ فراہم کریں گے۔
بات کرتے ہوئے ڈیجیٹل رائٹس ایکسپرٹ ڈاکٹر ہارون بلوچ کا کہنا تھا کہ تمام سیکٹرز کو وی پی این کی رجسٹریشن کروانے کی سروسز مفت مہیا کی گئی ہیں۔
ڈاکٹر ہارون بلوچ نے کہا کہ اگر کوئی کمپنی کوئی خاص وی پی این استعمال کرتی ہے اور اس کی یہ شرط بھی ہے کہ وہ یہی وی پی این استعمال کرنا چاہتی ہے تو اس کا وی پی این وفاقی حکومت کے ساتھ رجسٹر کروایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یوں بزنس سیکٹر کو تو وی پی این کی مفت رجسٹریشن کی سہولت مل جائے گی لیکن انفرادی سطح پر وی ہی این کی رجسٹریشن نہیں ہو پائے گی اور جب انفرادی سطح پر وی پی این نہیں استعمال کر پائیں گے تو آپ کا ڈیٹا محفوظ نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے جو پلیٹ فارم بلاک ہیں ان تک رسائی بہت محدود ہو جائے گی۔
ڈاکٹر ہارون بلوچ نے کہا کہ اسی طرح صحافی، سیاسی کارکن، ڈیجیٹل ایکٹیوسٹس وغیرہ کا وی پی این اگر گورنمنٹ کے ساتھ رجسٹر نہیں ہے تو ایکس تک ان کی رسائی نہیں ہوگی جو نہ صرف آزادی اظہار رائے کے علاوہ معلومات تک رسائی میں بھی بڑی رکاوٹ ہے۔