عوام کو اب الف لیلیٰ کی کہانیوں میں کوئی دلچسپی نہیں ، سربراہ سے محروم جماعتوں کا ہمیشہ یہی انجام ہوتا ہے، نیشنل پارٹی


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)نیشنل پارٹی کے صوبائی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان کی مجموعی عوام اور نوجوان سیاسی نظریاتی شعوری سیاست کے قائل ہیں روایتی بھڑک بازی سے ہٹ کر قومی و وطنی ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ سنجیدہ سیاست اور ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو ہر سودوزیاں میں اپنے عوام کے درمیان موجود ہو بدقسمتی سے بی این پی مینگل ان تمام تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے ان کا لیڈر دبئی کے پرفضا ماحول میں رہ کر سیاست گرم ترین ، سرد ترین اور پسماندہ ترین بلوچستان کا کرنا چائتا ہے، وہ اپنی پارٹی کو معذول و معذور قائمقام کے ذریعے چلانا چائتا ہے تاکہ کوئی آغا موسی جان یا ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی جیسا سلامت انسان قائمقام بن کر منصب پہ قابض نہ ہو اور پارٹی نام کا پراپرٹی بہ احسن خوبی فرزند کو منتقل ہو اس حواس باختگی کے عالم میں نان اشوز کو اشو بنانا ، بے جا الزام تراشی کرنا اپنی قد و قوت سے بڑی باتیں کرنا ان کا پراپرٹی منشور بن چکا ہے ، پارٹی تو اس دن دفن ہوا جب طاہرہ احساس جتک کی جگہ نسیمہ احسان شاہ اور حسین واڈیلہ کی جگہ اپنے بزنس پارٹنر قاسم رونجھہ کو سینیٹر بنایا گیا ، پارٹی اس دن دفن ہوا جب گورنر کے عہدے کے لیئے عمران خان کو چھوڑ کر پی ڈی ایم میں چھلانگ لگایا پارٹی اس دن دفن ہوا خضدار کے منجھے ہوئے سیاسی کارکنوں کو کنارہ لگا کر وڈھ سے وہ ایم پی اے لایا جو اسمبلی میں بھرپور نمائندگی کررہا ہے ، پارٹی اس دن دفن ہوا جب پارٹی کی مشاورت کے بغیر نیم استعفی کا نوید پارٹی کو سنایا گیا جس پارٹی کا سینٹ ، صوبائی اسمبلی کے نشستوں پر پارٹی سربراہ سے اتفاق نہ ہو اور مجبوری میں ساتھ جڑے ہوں وہ سیاسی کارکن نہیں نائب منشی یا پھر مفادات کا تابع درباریوں کا گروہ ہوتا ہے اب درباریوں کے اس گروہ کے ذریعے پراپرٹی کو چلایا جارہا ہے بہت جلد مارکیٹ میں نئی نسل کو یہ کاروبار سونپ دیا جاہیگا اور موصوف حسب روایت ولایت سے بھاشن دینگے اب ایسی جماعت کی الزام تراشی کو سنجیدہ لینا خود ایک غیر سنجیدگی ہے ، ایٹمی دھماکے کرانا پھر ایٹمی دھماکوں کے خلاف جلسہ کرنا ، نوجوانوں کو لاپتہ کرانے کے لیئے وٹہ سٹہ کرکے دوسو کو بازیاب آٹھ سو کو لاپتہ کرانا ، باپ پارٹی بناکر پھر اس کے گناہوں میں شامل نہ ہونے کا بازگشت سنانا ، قدوس بزنجو کا ماتھا چوم کر اس کے گناہوں سے منکر ہوا لاپتہ افراد کمیشن کا سربراہ بن کر ماما قدیر کے کیمپ میں وفاقی وزرا کے ساتھ دربار لگانا اور پھر اسے گناہ بے لذت قرار دینا اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر سینیٹر منتخب کرنا پھر پارلیمنٹ ہاوس کے دروازوں پر باونسرز کی طرح کھڑے ہوکر ان کو اجلاس سے روکنے کا ڈرامہ کرنا یہ 1990 کا بلوچستان نہیں 2024ہے بزرگ و جوان اپنی جگہ اب بلوچ کی بیٹیاں اور بہنیں بھی اتنی سمجھدار ہوچکی ہیں کہ ان کو بھی پتہ ہے کہ عمران خان اور شہباز شریف سے حاصل کردہ 34ارب روپے کہاں گم ہوگئے اور لین دین پر کتنے ذمہ داران معذول کیئے گئے اس لیئے ایسے گروہ کے غیر منطقی بیانات کو پارٹی سنجیدہ نہیں لیتا جو ٹینکی بیکری تو کرتے ہیں مگر تھانے میں ٹینکی و بیکری کیک کے الزام کا سامنا کرنے والے کا سجی نوش فرما رہے تھے ، ان کے الفاظ یہ ہیر پیر صرف اپنے کارکنوں کو طفل تسلی دینے کے لیئے ہے جو پراپرٹی چھوڑ کر پارٹیوں کی طرف رجوع کررہے ہیں ۔