نیشنل پارٹی پر تنقید برائے تعمیر کی تھی مگر سوالوں کا جواب دینے کی بجائے وہ ذاتیات پر اتر آئے، بی این پی
کوئٹہ(قدرت روزنامہ)بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان نیشنل پارٹی کے بیان کے رد عمل میں کہا گیا ہے کہ پارٹی بیانات میں تلخ حقائق کا ذکر کرتے ہوئے نیشنل پارٹی کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی تو سیخ پا ہو گئے ناراضگی کا یہ عالم ہے کہ وہ اب ذاتیات پر اتر آئے ہیں سیاسی اخلاقیات اس منفی عمل کی اجازت نہیں دیتیں پارٹی سمجھ سکتی ہے کہ کئی سالوں سے ان کی عوام سے دوری اور ڈائنگ روم کی سیاست سے بوکھلا گئے ہیں اگر کوئی مثبت تنقید کرے تو دیگر پارٹیوں کے اکابرین کو معزول قرار دیتے ہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر ان کی سیاسی جدوجہد پر نظر ڈالی جائے تو ان کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح پارلیمنٹ اور اقتدار تک ان کی رسائی ممکن ہو سیاسی جماعتیں اتحاد کرتی ہے مگر نیشنل پارٹی کا آج تک کسی پارٹی سے ایسا معاہدہ سامنے نہیں آیا جس میں آپریشن ، لاپتہ افراد کی بازیابی یا بلوچستان کے جملہ مسائل کا ذکر ہو معاہدہ مری بھی ڈھائی ڈھائی اقتدار کے ذکر تک محدود رہا اس میں کبھی بھی بلوچ مفادات کی بات نہیں کی گئی نیشنل پارٹی بتائے کہ مری معاہدہ میں بلوچ مفادات کے حوالے سے کیا مطالبات رکھے گئے تھے موجودہ دور حکومت میں آصف علی زرداری ، شہباز شریف ، سرفراز بگٹی کی حمایت ووٹ دینے کے بدلے بلوچ مفادات کے حوالے سے کیا کچھ کیا گیا یہاں بھی کوئی معاہدہ سامنے نہیں آیا انہوں نے ایک سینیٹرز ، دو اسٹیڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمین اور صوبائی اسمبلی میں فنڈز کی خاطر انہوں نے آنکھیں بند کر کے انہیں ووٹ دیا حالیہ آئینی ترمیم ، آمرانہ بلز پر خاموش تماشائیوں کی طرح ہاں ہی بول سکتے ہیں الیکشن سے قبل اسلام آباد میں شہباز شریف ، جاتی امراءمیں نواز شریف ، مریم نواز اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس اقتدار میں بھیک مانگنے گئی مگر ان کی دال نہیں گلی جو ان کی خواہش تھی خود کو جمہوری اور مڈل کلاس گرداننے والے 2013ءاور 2018ءکے انتخابات کے موقع پر انہوں نے اکثریتی پارٹی ٹکٹس بلوچستان کے سرداروں ، نوابوں کو دیئے اور اس دور میں ڈیتھ سکواڈ چاہے مکران میں ہو یا جھالاوان میں انہوں نے ڈیتھ سکواڈز کے ساتھ اتحاد کیا سانحہ توتک بھی ان کے دور کی کارستانی ہے جس کی رپورٹ سے آج تک عام بلوچ بے خبر ہے بی این پی جمہوری سوچ و فکر رکھنے والی جماعت ہے جس نے انتخابات میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کو اسمبلیوں تک پہنچایا نیشنل پارٹی کلب کی حیثیت رکھتی ہے جسے عوام میں کوئی پذیرائی نہیں ایک آدھ جلسے کر کے خود کو عوامی جماعت کہلاناانہیں زیب نہیں دیتیبیان میں کہا گیا ہے کہ سردار اختر جان مینگل واحد سیاسی رہبر ہیں جنہوں نے 2024ءکے انتخابات میں 4نشستوں پر کامیابی حاصل کی جسے بعد میں فارم 47کے حکمرانوں نے ان کی جیت کو ہار میں تبدیل کر دیا بلوچ اور بلوچستانی عوام کی بی این پی کو حمایت حاصل رہی پارٹی نے رہنماؤں و کارکنوں نے بلوچ قومی جہد میں قربانیاں دی بلوچ عوام بخوبی جانتے ہیں کہ کون سی پارٹی مشرف دور سے لے کر ہنوز سول ڈکٹیٹر کے دور تک متحرک اور بلوچ مفادات کیلئے جہد کر رہی ہے پارٹی کے تمام ادارے رہنماء،کارکن اہمیت کے حامل ہیں سیاسی اخلاقیات یہ درست نہیں دیتی کہ پارٹیوں میں بے جا مداخلت کی جائے نیشنل پارٹی نے تاریخی تلخ حقائق کا جواب دیتے کی بجائے تو آئیں ، بائیں ، شائیں کی رٹ لگائے ہوئے ہے ان کے بیانات سے بلوچ فرزند بخوبی ان کی سوچ اور صلاحیتوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں یہ کون سی دانشمندی ہے کہ کسی کو معزول اور کسی کو معذور کہہ کر پکارا جائے ان کی دانش یہیں تک محدود ہے سردار اختر جان مینگل نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایوان بالا میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے جس پر بھی انہیں مسئلہ تھا 2013ءسے اب تک اسمبلیوں میں کارکردگی کا دیکھا جائے تو گونگھے بن کر بیٹھے رہے ایسا نہ ہو کہ گستاخی ہو جائے اسلام آباد میں گزشتہ 9ماہ سے کی ان کی کارکردگی بلوچستان کے متعلق دیکھنے میں نہیں آئی موقع پرستی ، مفادات پرستی ، بڑھکیں بازی یہی ہے کہ خود کو مڈل کلاس ، جمہوری کہنے والوں نے مرحوم ڈاکٹر حئی بلوچ کے ساتھ جس بدیانتی کا مظاہرہ کیا یہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اب جبکہ چار جماعتی اپوزیشن ان کے مرہون منت ہے تو کیوںمحمود خان اچکزئی کو زبان دے کر بھی بے زبانی کر کے فارم 47کے امیدوار کو ووٹ دیا کیا یہ بلوچی زبان و قول کو فراموش کرنا نہیں ہماری بہن نے ان کے قومی کانگریس میںجو آئینہ ا کو دکھایا وہ ان کیلئے کافی ہے –