عمران خان کی فائنل کال، کیا پی ٹی آئی احتجاج کو دھرنے میں بدل پائے گی؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد پارٹی قیادت کی جانب سے انتظامات کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ عمران خان کی بہن علیمہ خان نے اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے بعد اعلان کرتے ہوئے کہاکہ عمران خان نے 24 نومبر کو پاکستان سمیت پوری دنیا میں احتجاج کی کال دی ہے، تاہم مرکز اسلام آباد ہی ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی احتجاج کی کال کو فائنل کال کہا جارہا ہے۔
اس احتجاج کی کال کے ساتھ عمران خان کی جانب سے کچھ مطالبات بھی رکھے گئے ہیں۔ جس میں 26ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ، جمہوریت اور آئین کی بحالی، مینڈیٹ کی واپسی اور تمام بے گناہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جائے گا، فائنل کال کے اعلان کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطالبات پورے ہونے تک گھروں کو واپسی نہیں ہوگی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کی قیادت اس بار احتجاج کو کامیاب بنا پائے گی، اسلام آباد میں دھرنا دینا کس حد تک ممکن ہے؟ اور اگر پی ٹی آئی احتجاج میں ناکام ہوگئی تو اس کے پارٹی پر کیا اثرات ہوں گے؟ ان تمام سوالوں کے جوابات ڈھونڈے کے لیے چند ماہرین سے بات کی ہے۔
’پاکستان تحریک انصاف کی حکمت عملی واضح نہیں‘
سیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ تحریک انصاف کی جانب سے احتجاج کی تاریخ دیے جانے کے باوجود پارٹی قیادت اور کارکنان کے درمیان اتحاد و اتفاق نظر نہیں آتا، کیونکہ حکمت عملی واضح نہیں ہے، اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ احتجاج کامیاب ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کی جانب سے جو مطالبات سامنے آئے ہیں ان پر حکومت کو منوانا خاصا مشکل ہوگا، کیونکہ ان میں سے کوئی ایک مطالبہ بھی ماننے کی صورت میں حکومت کی شفافیت پر مزید سوالیہ نشان پیدا ہوجائیں گے۔
ماجد نظامی نے کہاکہ بھاری بھر کم مطالبات، قیادت اور کارکنوں میں عدم اتفاق کی وجہ سے لگ رہا ہے کہ یہ احتجاج بھی ماضی کی طرح ختم ہوجائے گا اور کوئی کامیابی ملتی نظر نہیں آرہی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ اپوزیشن کارکنوں کو پُرامید رکھنے کے لیے حکومت پر دباؤ برقرار رکھتی ہے، لیکن تحریک انصاف گزشتہ 6 ماہ کے دوران کوئی کامیاب احتجاج نہیں کرسکی جس کی مختلف وجوہات ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اب مزید احتجاج کرنے سے بھی کوئی اثر نہیں ہوتا تو اس سے حکومت پر دباؤ کا اثر ختم ہوجائے گا اور پی ٹی آئی کے کارکنان مایوسی کا شکار ہوجائیں گے۔
’لگتا نہیں کہ پی ٹی آئی ڈی چوک میں داخل ہو سکے اور دھرنا دے‘
تجزیہ کار احمد ولید کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ عمران خان نے اس تحریک میں’ڈو اینڈ ڈائی‘ والی کال دی ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ فائنل کال ہے، لیکن بہت مشکل نظر آرہا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت ڈی چوک میں داخل ہوسکے اور دھرنا دے۔
انہوں نے کہاکہ 2014 میں جب پی ٹی آئی نے دھرنا دیا تو انہیں اسٹیبلشمنٹ کی پوری حمایت حاصل تھی، اور طاہر القادری بھی ان کے ساتھ تھے، تاہم اس بار صورت حال مختلف ہے۔ جیسے گزشتہ بار چند لوگ ڈی چوک پہنچ پائے اور واپس چلے گئے اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ عمران خان نے جو مطالبات رکھے ہیں وہ پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے، عمران خان کی رہائی اور مینڈیٹ کی واپسی کا مطالبہ پورا ہونا ناممکن ہے، کیونکہ اس بار اسٹیبلشمنٹ کا موڈ بالکل مختلف ہے۔
تجزیہ کار نے کہاکہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو بات چیت کی آفرز کرچکے ہیں لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آرہا، چھوٹی موٹی باتوں پر علی امین گنڈاپور کی اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت ہوجاتی ہے، تاہم عمران خان کے کیسز سمیت دیگر اہم مطالبات پر کوئی بریک تھرو ہوتا نظر نہیں آرہا۔
انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی تو پورے ملک سے لوگوں احتجاج میں نکالنا چاہے گی لیکن پنجاب کی صورت بہت مختلف ہے کیونکہ وہاں پارٹی قیادت بھی اختلافات کا شکار ہے۔
انہوں نے کہاکہ جب بھی اسلام آباد میں احتجاج ہوا خیبرپختونخوا سے ہی کارکنان نے شرکت کی، لیکن اس بار بہت مشکل ہوگا، کارکنوں کو بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا، بڑی شاہراہوں سمیت موٹروے بھی بند ہوگا، جس کے باعث لگتا نہیں کہ پی ٹی آئی مقاصد میں کامیاب ہوسکے۔
’تحریک انصاف دھرنا دینے کی پوزیشن میں نہیں‘
تجزیہ کار محمد عثمان رانا نے کہاکہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ پی ٹی آئی احتجاج میں کامیاب ہوکر اسلام آباد میں دھرنا دے پائے گی یا نہیں، ان کا ٹریک ریکارڈ رہا ہے کہ یہ اسلام آباد میں بڑا مجمع لانے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔
’میرا خیال ہے کہ اس بار بھی بات چیت کے ذریعے کوئی راستہ نکالا جائے گا کہ پی ٹی آئی احتجاج بھی کرلے اور واپس بھی چلی جائے، میرا نہیں خیال کہ تحریک انصاف دھرنا دینے کی پوزیشن میں ہے‘۔
انہوں نے کہاکہ اسلام آباد میں دھرنے کے معاملے پر پی ٹی آئی قیادت خود الجھن کا شکار ہے، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور تو بہت پرجوش ہیں لیکن ان کے بیانات، پھر دوسری جانب بیرسٹر گوہر اور شیر افضل مروت کا مؤقف دیکھیں تو ان میں کوئی تال میل نظر نہیں آتا۔
انہوں نے کہاکہ تحریک انصاف کا ہر لیڈر اپنی ہی کہانی سنا رہا ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف کے کارکنان سڑکوں پر نکلنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ ہم نے ماضی میں یہ بھی دیکھا کہ پی ٹی آئی کارکنوں نے قیادت پر تنقید کی کہ ہمیں الجھن میں ڈالا ہوا ہے۔
’پی ٹی آئی قیادت خود ایک پیج پر نہیں‘
انہوں نے کہاکہ پارٹی کی سینیئر قیادت، عمران خان کی بہنیں اور علی امین گنڈاپور اپنی اپنی بات کررہے ہیں، اس کنفیوژ صورت حال میں فیصلہ کن تحریک چلانے پر بہت سے سوالات کھڑے ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی ایک جانب احتجاج کرکے حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے تو دوسری جانب امریکیوں سے مدد حاصل کررہی ہے، جبکہ یہی عمران خان ماضی میں کہتے رہے ہیں کہ انہیں امریکی سازش کے ذریعے اقتدار سے نکالا گیا، اب جب وہ انہی امریکیوں سے مدد کا سوال کررہے ہیں کہ انہیں جیل سے نکلوایا جائے تو اس پر بھی ان کے کارکنان برہم نظر آتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ مجھے احتجاج کے نتیجے میں عمران خان کی رہائی نظر نہیں آتی، ان کے آزاد ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ اپنا طرز سیاست بدلیں۔
انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کے کچھ سمجھدار رہنما اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ احتجاج اور ٹکراؤ کی سیاست نے پارٹی کو نقصان پہنچایا ہے۔
عثمان رانا نے مزید کہاکہ عمران خان کا جو مزاج ہے اس سے بات بنتی ہوئی نظر نہیں آرہی، جب اسٹیبلشمنٹ بات کرنا چاہتی تھی عمران خان تیار نہیں تھے، اب وہ تو بات کرنا چاہتے ہیں لیکن اب اسٹیبلشمنٹ حامی بھرنے کو تیار نہیں۔
’موجودہ سیٹ اپ میں بات چیت کا کوئی راستہ نہیں نکلے گا‘
انہوں نے کہاکہ موجودہ سیٹ اپ میں بات چیت کا کوئی راستہ نہیں نکلے گا اور نہ ہی دھرنا ہوتا نظر آرہا ہے، بات تب ہی بنے گی جب عمران خان اپنے طرز سیاست پر غور کریں گے۔
عمران خان کے لیے ہر وقت حاضر لیکن پی ٹی آئی قیادت ہمیں بلا کر بھاگ جاتی ہے، کارکنان
چند روز قبل گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے کارکنان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے لیے ہم ہر وقت حاضر ہیں لیکن تحریک انصاف کی قیادت ہمیں احتجاج کے لیے بلا کر خود بھاگ جاتی ہے۔
پی ٹی آئی کارکنان کا مزید کہنا تھا کہ اگر یوں ہی راستے میں چھوڑ دینا ہے تو ہمارا وقت ضائع نہ کریں، اور ہمیں تنگ نہ کیا جائے۔