’’سر معافی تلافی کردیں‘‘ فواد چوہدری کی توہینِ الیکشن کمیشن کیس کی سماعت میں استدعا

پی ٹی آئی کا احتجاج کسی ایک جماعت کا یا فرد کا احتجاج نہیں بلکہ یہ احتجاج ہر پاکستانی کے لیے ہے، میڈیا سے گفتگو


اسلام آباد(قدرت روزنامہ)فواد چوہدری نے توہینِ الیکشن کمیشن کیس کی سماعت کے دوران استدعا کی کہ معافی تلافی کردی جائے۔
الیکشن کمیشن میں فواد چوہدری کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کیس کی سماعت ممبر سندھ نثار درانی کی سربراہی میں 4 رکنی کمیشن نے کی، جس میں فواد چوہدری پیش ہوئے۔
فواد چوہدری نے کمیشن کے سامنے پیش ہوکر کہا کہ میں نے تینوں کیسز میں معافی مانگ لی ہے۔ میں نے کیسز میں معافی بھی جمع کرائی ہے، جس پر ممبر کے پی کے جسٹس اکرام اللہ نے کہا کہ آج تو چارج فریم کرنا ہے۔ فواد چوہدری نے استدعا کی کہ سر معافی تلافی کر دیں۔
ممبر کمیشن نے کہا کہ آپ باہر جاکر وہی بات کر رہے یا فرق پڑ گیا، جس پر فواد چوہدری نے جواب دیا کہ آج کل آپ توجہ میں نہیں۔ ممبر کمیشن نے کہا کہ اس کیس میں گواہ تو آئے ہیں وہ اپنی حاضری لگا دیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ آپ اوروں کی باتیں بھول جاتے ہیں ، میری یاد رکھتے ہیں۔ بعد ازاں الیکشن کمیشن نے کیس کی سماعت 10 دسمبر تک ملتوی کردی۔
مذاکرات سے حل نکلتا ہے تو سیاست میں بہتری آ سکتی ہے
سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ امریکا میں پاکستانی سفیر نے پاکستانیوں کے لیے ہاؤس اوپن کیا۔ سیاسی تعلقات اور انسانی تعلقات مشترکہ ہیں۔ اگر لوگوں کی گرفتاریاں ہوتی ہیں تو یہ کسی فرد واحد کا مسئلہ نہیں یہ دنیا کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت عوامی نمائندوں کی حکومت نہیں ہے۔18 سیٹوں والا وزیر اعظم بن گیا ہے۔ 24 نومبر کو بانی پی ٹی آئی نے احتجاج کا اعلان کیا ہوا ہے۔ یہ احتجاج کسی ایک جماعت کا یا فرد کا احتجاج نہیں ہے۔ یہ احتجاج ہر پاکستانی کے لیے ہے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اگر مذاکرات سے حل نکلتا ہے تو سیاست میں بہتری بھی آ سکتی ہے۔ اگر مذاکرات سے حل نکلتا ہے تو اسے کمپرومائز نہ سمجھا جائے۔ سیاسی قیدیوں کی رہائی پاکستان کے آئین کی بات ہے۔ ہم آئین اور قانون کی بحالی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کل جمعرات تک احتجاج کا حتمی فیصلہ آنا متوقع ہے۔ اگر کل مذاکرات یا بات چیت ہوتی ہے تو سیاسی درجہ حرارت میں کمی آنا متوقع ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے اس وقت 3 مطالبات ہیں، مینڈیٹ واپسی، 26 آئینی ترمیم اور سیاسی قیدیوں کی رہائی۔