5 سے 10 ہزار ورکرز کو اسلام آباد لانے کا ہدف، کروڑوں روپے کہاں سے لائیں، پی ٹی آئی اراکین پریشان


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کو اسلام آباد مارچ کے لیے بالترتیب 5 ہزار اور 10 ہزار کارکنان لانے کا ٹاسک ملا ہے۔ تاہم خیبرپختونخوا کے ممبران صوبائی و قومی اسمبلی اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے درکار فنڈز کے حوالے سے خاصے پریشان ہیں کیونکہ یہ تمام اخراجات انہیں اٹھانا ہوں گے۔
پی ٹی آئی ممبران کے مطابق، پارٹی کے بیشتر ممبران کا تعلق مڈل کلاس سے ہے، احتجاج اور مارچ کے لیے کروڑوں روپے کے اخراجات پورے کرنا ان کے بس سے باہر ہے۔
اراکین اسمبلی کو اخراجات خود برداشت کرنا ہوں گے، شیخ وقاص اکرم
بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے 24 نومبر کی ’فائنل کال‘ کے بعد اسلام آباد مارچ اور ڈی چوک پر دھرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ مارچ کے لیے تمام تر تیاریوں کی عمران خان کی اہلیہ اور سابق خاتون اوّل بشری بی بی خود نگرانی کررہی ہیں اور وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں پارٹی قیادت کے ساتھ اس حوالے سے مختلف میٹنگز کررہی ہیں۔
پی ٹی آئی کے مرکزی ترجمان شیخ وقاص اکرم نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ صوبے بھر سے کارکنان اراکین اسمبلی کی قیادت میں قافلوں کی شکل میں نکلیں گے اور صوابی موٹروے پہنچیں گے جہاں سے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں مرکزی قافلہ ڈی چوک اسلام آباد کی جانب روانہ ہو گا۔
شیخ وقاص اکرم نے بتایا کہ تمام اراکین اسمبلی دی گئی ہدایات اور اہداف کے مطابق تیاری کررہے ہیں، اراکین کارکنان کے لیے ٹرانسپورٹ، کھانا، پانی اور دیگر تمام انتظامات کریں گے اور ہر رکن اسمبلی اپنے قافلے کے تمام اخراجات خود برداشت کرے گا۔ انہوں نے کہا، ’بات صاف ہے کہ اگر ٹکٹ ملنے کے بعد یہ لوگ الیکشن کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں تو پارٹی کے لیے یہ اخراجات بھی برداشت کرسکیں گے۔‘
’کروڑوں کے اخراجات، پیسے کہاں سے لائیں؟‘
ادھر بشریٰ بی بی پارٹی اراکین اور قیادت پر واضح کردیا ہے کہ جو اراکین کارکنانوں کو نکالنے میں ناکام رہے تو ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ پارٹی کی جانب سے ملنے والی ہدایات پر خیبرپختونخوا کے پی ٹی آئی اراکین کی پریشانیاں بڑھ گئی ہیں۔
ان کے مطابق، وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور احتجاجی مارچ کی مد میں صرف 2 سے 4 لاکھ روپے دے رہے ہیں جبکہ ان کے اخراجات کروڑوں روپے میں ہیں۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک رکن اسمبلی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی نیوز کو بتایا کہ ان کی بات سننے کو کوئی تیار نہیں، بس سب ہدایات دے رہے ہیں کہ بندے لاؤ اور مارچ کو کامیاب کرو۔
انہوں نے کہا، ’ہمیں 5 ہزار بندے لانے کا ٹاسک دیا گیا ہے، خود سوچیں کہ 5 ہزار افراد کے لیے کم از کم 300 بڑی گاڑیاں چاہییں، پھر کھانا، دیگر اخراجات، سب ملا کر میرا ایک کروڑ سے زائد کا خرچہ ہو گا، لاہور اور ڈی چوک احتجاج کے اخراجات بھی خود ادا کیے تھے، اس وقت ایک کروڑ روپے سے زائد رقم خرچ ہوئی تھی اور اب پھر سے سارے اخراجات ہمارے ذمہ لگا دیے گئے ہیں۔‘
’میں صرف ایم پی اے ہوں، مشیر، معاون خصوصی یا وزیر نہیں، میں انتے پیسے کہاں سے لاؤں گا‘
خیبرپختونخوا کے ایک دور افتادہ ضلع سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی نے بتایا کہ 10 ہزار بندے لے جانا ممکن نہیں، اس سرد موسم میں اتنے بندے نہیں آئیں گے، دور افتادہ علاقے سے اتنے لوگوں کے لیے 600 سے زائد بڑی گاڑیاں درکار ہوں گی جن کا ایک طرف کا خرچہ ایک لاکھ سے زائد ہے، میرا تعلق مڈل کلاس سے ہے، ایم این اے تنخواہ پر گزارہ کررہا ہوں، میرے پاس کروڑوں روپے نہیں، صرف 3 سے 4 گاڑیوں کا خرچہ برداشت کرسکتا ہوں۔‘
’کارکنان بھی اچھی گاڑی اور بہتر انتظامات کا مطالبہ کرتے ہیں‘
مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی رکن اسمبلی نے بھی مارچ اخراجات بس سے باہر ہونے کا شکوہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک رکن اسمبلی کروڑوں کا خرچہ کیسے برداشت کرسکتا ہے، رکن اسمبلی اتنی کرپشن بھی نہیں کرسکتا اور نہ سرکاری محکوں سے اس قدر فائدہ لے سکتا ہے، ہر بندہ ارب پتی بھی نہیں کہ آسانی سے کروڑوں کے اخراجات برداشت کرے۔
انھوں نے بتایا، ’کارکنان کو نکلنے کی ذمہ داری اراکین اور ضلعی قائدین کو دی گئی ہے اور تمام تر نظریں اراکین پر ہیں، جو ورکرز احتجاج کے لیے نکل رہے ہیں وہ متعلقہ رکن اسمبلی سے بہترین انتظامات کا مطالبہ کرتے ہیں، گاڑی اچھی ہونی چاہیے، اچھے کھانے، جیب خرچ وغیرہ، تب جا کر وہ ایم پی اے زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں۔‘
کیا اراکین اسمبلی ہزاروں کی تعداد میں کارکنان کو اپنے ساتھ لاسکیں گے؟
پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق، بشریٰ بی بی نے تمام اراکین کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کارکنان کو لائیں اور ان کی ویڈیوز بنا کر ثبوت بھی پیش کریں۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ پشاور، مردان، نوشہرہ، صوابی اور دیگر اضلاع سے زیادہ بندے آنے کی امید ہے جبکہ دور دراز کے اضلاع سے بھی لوگ نکلیں گے۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ اس بار بشریٰ بی بی نے پنجاب میں پی ٹی آئی قیادت کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ وہ ہر صورت نکلے اور ڈی چوک پہنچے۔ تاہم اس بار بھی سب کی نظریں خیبرپختونخوا پر ہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس بار بشریٰ بی بی خود مارچ کی نگرانی کریں گی اور رپورٹ عمران خان کو دیں گی، یہی وجہ ہے کہ تمام اراکین پریشان ہیں۔ ذرائع کے مطابق، پارٹی قیادت کا خیال ہے کہ اگر خیبرپختونخوا سے ایک لاکھ لوگ بھی نکل آئے تو مارچ کامیاب ہوجائے گا اور پھر ڈی چوک پہنچ کر دھرنا ہوگا۔