کیا تحریک انصاف بلوچستان ہزاروں کارکنان کو اسلام آباد احتجاج کے لیے اکٹھا کر پائے گی؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی فائنل کال پر 24 نومبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاجی جلسہ عام منعقد کیا جارہا ہے، جس کے لیے تحریک انصاف کی جانب سے ملک بھر میں کارکنان کو اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
24 نومبر کو ہونے والے جلسے کے لیے ملک بھر میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان نے تیاریاں مکمل کر لی ہیں، پنجاب اور خیبر پختونخوا سے پاکستان تحریک انصاف کے اراکین صوبائی و قومی اسمبلی کو 5 سے 10 ہزار کارکنان کو جمع کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کے اسلام آباد کے احتجاج کے لیے جہاں دیگر صوبوں میں تیاریاں جاری ہیں وہیں بلوچستان میں بھی پاکستان تحریک انصاف نے جلسے میں شرکت کے لیے تیاریاں مکمل کر لیں ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے صوبائی صدر داؤد کاکڑ نے بتایا کہ عمران خان کی کال پر بلوچستان سے بھی بڑی تعداد میں کارکن اسلام آباد میں ہونے والے جلسے میں شرکت کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ صوبے کے تمام اضلاع میں موجود عہدے داروں کو ہدایت کر دی گئی ہے کے زیادہ سے زیادہ کارکنان کو اکھٹا کیا جائے۔ تاہم پاکستان تحرک انصاف بلوچستان 23 نومبر کو کوئٹہ سے روانہ ہوں گے جبکہ اب تک 1800 سے زیادہ کارکن اسلام آباد پہنچ چکے ہیں جو جلسہ عام میں شریک ہوں گے۔
داؤد کاکڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان بھر میں 10 ہزار سے زیادہ پی ٹی آئی کارکن جلسہ عام میں شریک ہوں گے جن کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔
ادھر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ہے کہ پاکستان تحریک انصاف جس افرادی قوت کا دعویٰ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں رکھتی ہے ویسی قوت سندھ اور بلوچستان میں نہیں ہے۔ بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف نے 2018 کے انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے چند سیٹیں تو حاصل کیں لیکن صوبے میں اپنی مضبوط پوزیشن حاصل نہیں کر سکی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ بلوچستان کی سیاست ملک بھر کی سیاست سے مختلف ہے۔ ملک بھر میں جہاں سیاسی جماعتیں صوبوں میں اپنی اپنی ساکھ رکھتی ہیں وہیں بلوچستان میں قبائلی نظام کی وجہ سے سیاست شخصیات کے اطراف گھومتی ہے، اس کے علاوہ قوم پرست اور مذہبی سیاسی جماعتوں کی گرفت مرکز کی سیاسی جماعتوں سے زیادہ ہے۔
سیاسی پنڈتوں کا یہ بھی مؤقف ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وفاق میں بلوچستان کی کم نمائندگی کی وجہ سے صوبے کو زیادہ ترجیح نہیں دی جس کی وجہ سے صوبے کے نوجوانوں میں عمران خان اس طرح مقبول نہیں جس طرح دیگر صوبوں میں مقبول ہیں۔
اس کی واضح مثال یہ بھی ہے کہ 9 مئی کو ملک بھر میں شدید پرتشدد مظاہرے ہوئے لیکن بلوچستان میں مظاہروں کی نوعیت ویسی سنگین نہیں تھی جیسے ملک بھر میں تھی تاہم ان تمام تر وجوہات کی وجہ سے یہ امکان کم ہے کہ اسلام آباد احتجاج میں بلوچستان کی کوئی بھرپور نمائندگی یا تعداد پہنچ سکے گی۔