وفاقی دارالحکومت میں کسی احتجاج یا دھرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اسلام آباد ہائیکورٹ کا تحریری فیصلہ جاری


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلام آباد میں کسی بھی طرح احتجاج یا دھرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کی قیادت کو وزیر داخلہ محسن نقوی کی قیادت میں تشکیل پانے والی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کی ہدایت کی ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عامر فاروق نے اسد عزیز کی جانب سے حکومت پاکستان کے نام دائر درخواست کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
تحریری فیصلے میں جسٹس عامر فاروق نے کہا ہے کہ عدالت کے پہلے کے حکم کی روشنی میں وزیر داخلہ، سیکرٹری داخلہ، حکومت پاکستان کے ساتھ ساتھ چیف کمشنر، آئی سی ٹی اور انسپکٹر جنرل آف پولیس، آئی سی ٹی، اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ ایک سیاسی جماعت کے ارکان احتجاج اور دھرنے کے لیے اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) کا رخ کر رہے ہیں اور مدعا علیہان نمبر 1 سے 4 امن و امان کی صورتحال کو معمول پر لانے اور کسی قسم کی رکاوٹ کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ کوششیں کر رہے ہیں تاکہ عام شہریوں کے معموملات زندگی میں کوئی خلل نہ آئے۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ جب بھی کوئی سیاسی سرگرمی، احتجاج یا دھرنا ہوتا ہے تو اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری میں زندگی مکمل طور پر رک جاتی ہے۔ عرضی میں کہا گیا تھا کہ درخواست گزار پیشے کے لحاظ سے ایک تاجر ہیں اور اسے آئین کے مطابق ذریعہ معاش اور نقل و حرکت کی آزادی کا بنیادی حق حاصل ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ مدعا علیہان نمبر 1 سے 4 تک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جب بھی کوئی سیاسی سرگرمی یا احتجاج ہو تو درخواست گزار یا اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری کے کسی بھی شہری کے بنیادی حقوق میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ وزیر داخلہ، ایڈوکیٹ جنرل آئی سی ٹی اسلام آباد اور درخواست گزار کے وکیل کو سننے کے بعد یہ واضح ہے کہ مدعا علیہ نمبر 5 (پاکستان تحریک انصاف) نے 24 دسمبر 2024 کو وفاقی دارلحکومت میں سیاسی ریلی اوردھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔
فیصلے کے مطابق کچھ اسی طرح کے حالات میں اس عدالت نے رٹ پٹیشن نمبر 2974/2024 میں 05.10.2024 کے حکم کے ذریعے کہا کہ پاکستان کے شہریوں کو جلسے، جلوسوں اورنقل و حرکت کی آزادی کے بنیادی حقوق فراہم کیے جاتے ہیں، تاہم وہ متناسب اورمعقول پابندیوں کے تابع ہیں۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ آئین میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس طرح کی پابندیاں صرف جائز مقاصد کے لیے ہی جائز ہیں جو وسیع ترعوام کے بہترین مفاد میں ہونی چاہییں۔ اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری میں امن وامان کی برقراری وزارت داخلہ اوراسلام آباد انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اور فرائض کی انجام دہی کے دوران متناسبیت اورعوامی مقصد اور مقصد کے جواز کے اصول، مذکورہ حکام کو سخت یا غیرمتناسب پابندیوں کی روک تھام کا پابند بناتے ہیں جو بصورت دیگر حقوق کی غیر قانونی خلاف ورزی کے مترادف ہوں گے۔
فیصلے کے مطابق ملک کے دارالحکومت کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مقننہ نے حال ہی میں پرامن احتجاج اور پبلک آرڈر ایکٹ 2024 نافذ کیا ہے، جس کے تحت وفاقی دارلحکومت میں اسمبلی کے لیے ضلع مجسٹریٹ کو تحریری طور پر درخواست دی جاتی ہے۔اس میں حوالہ شدہ درخواست پر کارروائی کی جانی ہے اور اجتماع کی اجازت کے بارے میں مناسب حکم دیا جانا ہے لہٰذا اس عدالت کو بتایا گیا کہ آج تک ایسی کوئی درخواست نہیں دی گئی ہے۔
فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ عدالت کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بیلاروس کے صدر اپنے 60 سے زیادہ افراد کے وفد کے ساتھ 24.11.2024 کو پہنچ رہے ہیں اور ان کا تحفظ اور نقل و حرکت کی آزادی انتہائی اہم ہے، اس کے براہ راست کسی دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس میں وسیع ترعوامی مفاد شامل ہے۔
عدالت کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگرچہ مدعا علیہ نمبر 5(پی ٹی آئی) کی قیادت کے ساتھ کچھ بات چیت ہوئی ہے لیکن اس طرح کی کوئی رسمی بات چیت نہیں کی گئی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نقل و حرکت اور اجتماع کی آزادی اور مدعا علیہ نمبر 5 (پی ٹی آئی ) کے کارکنوں کے بنیادی حقوق کو مدنظررکھتے ہوئے، انہیں وہ حق حاصل ہے جو قانون کے تحت پرامن اجتماع اورپبلک آرڈرایکٹ، 2024 کے تابع ہے، یہ مناسب ہوگا کہ مدعا علیہ نمبر 1 کمیٹی تشکیل دے جس کی سربراہی وزیر داخلہ یا کسی دوسرے شخص کی سربراہی میں ہو جو مدعا علیہ نمبر 5 (پی ٹی آئی ) کی قیادت کے ساتھ بات چیت کرے۔
فیصلے کے مطابق کمیٹی کسی بھی ملک کے صدر کی نقل و حرکت کی وجہ سے ہفتے کے اختتام پرانہیں حساسیت سے آگاہ کرے۔ بات چیت کی شرائط کو مدعا علیہ نمبر 1 کے ذریعہ پیش اور طے کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح تشکیل دی گئی کمیٹی میں جسے وزیر داخلہ مناسب سمجھے، ان میں چیف کمشنر، آئی سی ٹی اور کوئی بھی دوسرا شخص شامل ہوگا ۔
فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ اس عدالت کو یقین ہے کہ جب بھی اس طرح کی رسمی مصروفیت ہوں گی، کچھ پیش رفت ہوگی۔ اگر کوئی پیش رفت نہیں ہوتی ہے تو امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنانا عام شہریوں کی زندگی میں کم سے کم خلل ڈالے بغیر نمبر 1 سے 4 کی ذمہ داری ہے اور ایکٹ 2024 کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چونکہ اس موضوع پر قانون واضح ہے، مدعا علیہ نمبر 1 سے 4 آئی سی ٹی، اسلام آباد میں امن و امان کی بحالی کے لیے ضروری اقدامات کریں گے۔ اس سلسلے میں مدعا علیہان نمبر 1 سے 4 تک ایکٹ 2024 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی بھی احتجاج یا ریلی یا دھرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’اگرچہ مدعا علیہ نمبر 5 (پی ٹی آئی ) کی طرف سے کوئی بھی موجود نہیں ہے، لیکن یہ توقع کی جاتی ہے کہ مدعا علیہ نمبر5 (پی ٹی آئی) کی قیادت وزیر داخلہ کی طرف سے پیش کردہ عوامل کو مدنظر رکھے گی اور اس طرح تشکیل دی گئی کمیٹی کے ساتھ بامعنی بات چیت کرے گی۔ اس ضمن میں مدعا علیہان نمبر 1 تا 4 آئندہ سماعت سے قبل رپورٹ جمع کرائیں گے۔
واضح رہے کہ مقدمے میں درخواست گزاروں کے وکیل راجہ رضوان عباسی اور دانش اشراق عباسی عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دگل، وفاقی پراسیکیوٹر جنرل غلام سرور نہنگ، ایڈووکیٹ جنرل آئی سی ٹی ایاز شوکت، ارشد محمود کیانی، سید احسن رضا کاظمی، ڈپٹی اٹارنی جنرلز سرفراز رؤف اور آسیہ بتول، اسسٹنٹ اٹارنی جنرلز عدنان علی، ڈی ڈی پی پی ملک عبدالرحمٰن، رانا علی رضا، سیف الرحمان، چوہدری احسن مجید گجر، سردار خان، جانان گل، کاشف حسین اور حسن سلیمان مراد، ریاستی وکیل بھی درخواست میں فریق تھے۔
اس کے علاوہ درخواست میں وفاقی وزیر داخلہ محسن رضا نقوی، سیکرٹری داخلہ خرم علی آغا، چیف کمشنراسلام آباد ایم علی رندھاوا، آئی جی اسلام آباد سید محمد علی رضوی، لا آفیسر پولیس طاہر کاظم اور سی پی اواسلام آباد کو بھی درخواست میں فریق بنایا گیا تھا۔