نسل کشی اور وسائل کی لوٹ مار کیخلاف بلوچ کو منظم ومتحد ہو کر میدان میں نکلنا ہوگا، ماہ رنگ بلوچ


تربت(قدرت روزنامہ)بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر مہرنگ بلوچ نے کہاہے کہ ریاستی نسل کش پالیسیوں کیخلاف بلوچ کو منظم ومتحدہوکر میدان میں نکلنا ہوگا، ریاست کے پاس صرف 2پالیسیاں ہیں ایک بلوچ کے وسائل کی لوٹ مار اور دوسری بلوچ نسل کشی، ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کی شام بلوچ یکجہتی کمیٹی کیچ کے زیراہتمام شہید فدا چوک تربت پر شہید بالاچ مولابخش ودیگر شہداء کی پہلی برسی کی مناسبت سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا، ڈاکٹر مہرنگ بلوچ نے کہاکہ بلوچستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے روزانہ لاشیں گرانے کا سلسلہ جاری ہے، شہید بالاچ کی لاش کو لاوارث سمجھ کر لاوارث سمجھ کر پھینکا گیا مگر شہید بالاچ کی فیملی نے لاش کو خاموشی سے دفنانے کے بجائے احتجاج کا راستہ اختیار کیا، 23نومبر سے6دسمبر 2023ء تک لاش کے ساتھ دھرنا دیا گیا،کیچ نے باہر نکل کر ثابت کردیا کہ بالاچ ہمارا ہے، اس کے بعد تربت سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا گیا، ایک سال کے دوران یہ جدوجہد تقویت اختیار کرچکی ہے، یہ جدوجہد ایک نئی مستقبل کیلئے ہے، انہوں نے کہاکہ گزشتہ ایک سال کے دوران دوسو سے زائد نوجوان لاپتہ کئے گئے ہیں، بلوچ کا ہرگھر درد کا آماچ بنادیا گیا، انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں تسلسل سے ریاستی مظالم جاری ہیں مگر اس کے باوجود پاکستان کانام نہاد دانشور طبقہ اور صحافی سخت آپریشن کی ڈیمانڈ کررہے ہیں، بلوچ ڈر اور خوف اپنے دل سے نکال دیں، ان مظالم کے مقابلے کیلئے خودکومنظم کریں یکجا اورمتحدہوئے بغیر بلوچ نسل کشی کا راستہ روکنا ممکن نہیں، نسل کشی کی تدارک کیلئے سخت سے سخت ترین قربانی کیلئے تیار ہوجائیں، انہوں نے کہاکہ بلوچ اگر اسی طرح خاموش رہے تو مزید ظلم کے آماچ بنادئیے جائیں گے، بے گھر کرکے گھروں کو آگ لگایاجائے گا، آواران کو دیکھیں آج اس کی کیاحالت بنادی گئی ہے، انہوں نے کہاکہ فورتھ شیڈول، دفعہ 144 پنجاب کے لوگوں کو ڈراسکتے ہیں بلوچ اس سے نہیں ڈرتا، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنما صبغت اللہ شاہ جی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ شہید بالاچ کی شہادت نے اس تحریک کو مہمیز دی ہے یہ تحریک منظم انداز میں آگے بڑھ رہی ہے ایک دن کے اعلان پر آج یہاں عوام کا جم غفیر جمع ہے لوگ بہادری کے ساتھ گھروں سے نکلے ہیں، اپنے اتحاد کو برقرار رکھیں اورتمام تر سازشوں کوناکام بنادیں، سیمینار کے دوران ایک پینل ڈسکشن کا اہتمام کیاگیا جس میں مکران ہائی کورٹ بار کے صدرمحراب خان گچکی ایڈووکیٹ، کیچ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبدالمجید شاہ ایڈووکیٹ، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما صبغت اللہ شاہ جی اور کیچ بار کے رہنما عبدالمجید دشتی ایڈووکیٹ شریک تھے، محراب خان گچکی ایڈووکیٹ نے کہاکہ دنیا میں لوگوں کو جبری لاپتہ کرنے کو ایک جرم قرار دیا گیا ہے آئین کے آرٹیکل نمبر 4 سمیت دیگر کئی دفعات ہر شہری کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں، مگر یہاں شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کئے گئے ہیں، لوگوں کو جبری لاپتہ کرنا سنگین جرم ہے بنگال میں یہی تجربہ کیاگیا اب بلوچستان سمیت دیگر صوبوں میں یہ تجربہ کیاجارہاہے، انہوں نے کہاکہ سرکار دہشت گردی اور انقلابی جدوجہد میں فرق کرے، بلوچستان میں انقلابی جدوجہد کو دہشت گردی سمجھ کر اسے جبروطاقت سے ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، بلوچستان میں پانچ آپریشن کئے گئے ہیں نتیجہ بہتری کے بجائے بدتری کی صورت میں نکلا ہے، کیچ بار کے صدر عبدالمجید شاہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ ایپکس کمیٹی کوتجزیہ کرنا چاہیے تھاکہ 70سالوں سے کونسی آپریشن کامیاب ہوئی ہے کہ اب کسی نئے آپریشن کی ضرورت محسوس کی گئی ہے، سیکورٹی وجوہات کی بناء پر جوفیصلے کئے جاتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے، آپریشن میں غریب اوربے گناہ مارے جائیں گے، انہوں نے کہاکہ آئین کے تحت شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے مگر شہریوں کو احتجاج اور اظہار رائے کا حق نہیں دیا جارہاہے، اچانک 15دنوں کیلئے دفعہ 144کانفاذ خود غیر آئینی اقدام ہے جسے وکلاء تسلیم نہیں کرتے ہیں، عبدالمجید دشتی ایڈووکیٹ نے کہاکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی میڈیا کے ذریعے مسائل کو اجاگرکرنے کے ساتھ ساتھ بلوچ کومنظم کرے، بیرون ممالک کے بلوچوں کوبھی منظم کرنے کی ضرورت ہے، بلوچ وکلاء اور دانشوروں کی ایسی ٹیم بنائیں جو عالمی عدالت انصاف میں بلوچ کے مقدمہ کو لڑے، سیمینار میں مجیب رحیم اور شہید بالا چ مولابخش کے بھائی یونس بلوچ نے اشعار پیش کئے۔