پی ٹی آئی احتجاج: کیا عمران خان کی رہائی کے امکانات بڑھ گئے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان تحریک انصاف کا احتجاج چوتھے روز میں داخل ہوچکا ہے اور پارٹی کا مرکزی قافلہ بھی اسلام آباد پہنچ چکا ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے فائنل کال دی گئی اور پارٹی لیڈروں اور کارکنان کو ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت کی گئی جس پر ملک کے مختلف حصوں سے لوگ دارالخلافے کے ریڈ زون کی جانب رواں دواں ہوئے۔
دوسری جانب وزیر داخلہ کی جانب سے یہی کہا جاتا رہا کہ پی ٹی آئی کو کسی صورت اسلام آباد میں گھسنے نہیں دیا جائے گا لیکن بہرحال پی ٹی آئی کا قافلہ اسلام آباد پہنچ گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت پر کتنا پریشر ہے اور وہ پی ٹی آئی کے قافلے کے ساتھ کس طرح نمٹے گی۔ نیز اب عمران خان کی رہائی کے امکانات کیا ہیں؟
حکومت عمران خان و دیگر کو رہا کرے ورنہ انجام برا ہوسکتا ہے، امتیاز عالم
تجزیہ کار امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کا قافلہ اسلام آباد پہنچ چکا ہے جس کے بعد اب حکومت کافی زیادہ پریشان دکھائی دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ سابق وزیراعظم عمران خان جو پہلے ہی اتنے کیسز میں بری ہو چکے ہیں کو اب رہا کردے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف وہی نہیں اور بھی جو لوگ 2 سال سے جیلوں میں ہیں انہیں بھی رہا کیا جائے بصورت دیگر اس کا انجام بہت برا ثابت ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جو اتنی بڑی تعداد میں عوام پہنچے ہیں اور راستے بھی کھل رہے ہیں تو اب یہ مجمع مزید بڑھتا جائے گا اور یہ بے قابو بھی ہو سکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو بہت خون خرابا ہوسکتا ہے۔
’معاملہ حکومت کی برطرفی اور نئے انتخابات کی طرف جائے گا‘
امتیاز عالم نے کہا کہ سنہ 2024 کے عام انتخابات کے نتائج کا فیصلہ 3 مہینوں میں ہونا تھا جو اب تک نہیں ہو پایا لہٰذا اس الیکشن کمیشن کو فارغ کر دینا چاہیے اور حکومت معاملات سلجھانے کی طرف جائے کیونکہ سمجھوتے سے ہی معاملات بہتر ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا بھی لگ رہا ہے کہ حکومت کو اپنی جگہ چھوڑنی پڑجائے گی اور معاملہ نئے انتخابات پر ہی رکے گا۔
لگتا نہیں کہ اس احتجاج پر عمران خان رہا کردیے جائیں، ماجد نظامی
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار ماجد نظامی نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بدقسمتی یہ رہی ہے کہ جلسے جلوس مظاہرے اور دھرنوں کے بعد ہونے والے مذاکرات ہی بامعنی اور نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں اس لیے پاکستان تحریک انصاف بھی اسلام آباد آئی ہے تاکہ پریشر کے ساتھ وہ حکومت سے اپنے کچھ مطالبات منوا سکے۔
ماجد نظامی نے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر تشدد سے بچتے ہوئے فریقین کسی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر عمران خان کی جماعت کے لیے ریلیف کا چانس بن سکتا ہے لیکن اب تک کے حالات سے ایسا نہیں لگتا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی بھی ہوگی کیونکہ ابھی اعتماد سازی کے لیے کچھ بڑے اقدامات کیے جانے باقی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح تحریک انصاف کے ورکرز کا قافلہ پیش قدمی کر رہا ہے اس سے تو لگتا ہے کہ حکومت نے سخت اقدامات سے گریز کیا ہے اس لیے اب حکومت دباؤ میں بھی نظر آ رہی ہے جس سے تحریک انصاف کو فائدہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ڈی چوک پر کوئی ہنگامہ آرائی ہوتی ہے یا نہیں اور اگر ہوتی ہے تو اس کا لیول کیا ہوگا۔
اب تک تو جیسا بشریٰ بی بی چاہ رہی ہیں ویسا ہی ہو رہا ہے، عثمان رانا
عثمان رانا نے کہا کہ جیسا کہ پی ٹی آئی کا قافلہ اسلام آباد میں داخل ہو چکا ہے اس سے قبل حکومت کی جانب سے ہمیں بتایا گیا تھا کہ 30 سے 40 ہزار نفری تعینات کی گئی ہے اور اگر قافلے کی تعداد کا تعین کیا جائے تو رائے عامہ کے مطابق یہ 20 ہزار سے زیادہ نہیں ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ راستے میں جو رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں قافلے کے شرکا انہیں ہٹاتے ہوئے پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی قابل ذکر مزاحمت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے نہیں دکھائی دی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر مان لیا جائے کہ 30 ہزار سے زائد پولیس اہلکار وہاں موجود تھے تو ہمیں تو ان کی موجودگی نظر نہیں آئی۔
عثمان رانا نے کہا کہ اگر حکومت نے خود راستہ چھوڑا اور ان کو آنے دیا تو یہ الگ بات ہے اور اس کے پیچھے ان کی کیا حکمت عملی ہے یہ تو محسن نقوی ہی بتاسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی جانب سے تو بار بار ایک ہی بات کی جا رہی ہے کہ وہ خون خرابا نہیں چاہتے اس لیے ہم نے بڑے صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور بار بار ایک ہی بات کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ اب یہ ہماری بات مان جائیں اور سنگجانی یا کہیں اور جا کر اپنا پڑاؤ ڈالیں اور اپنے مطالبات کے حق میں بیٹھے بھی رہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن اس وقت تک یہی لگ رہا ہے کہ سارے معاملات بشریٰ بی بی کے ہاتھ میں ہیں جو جیسا چاہ رہی ہیں ویسا ہی ہو رہا ہے۔
’حکومت اور پی ٹی آئی میں خلیج بڑھتی نظر آرہی ہے‘
انہوں نے کہا کہ دوسری جانب عمران خان کے ساتھ بھی مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور مختلف پیغامات لے کر پارٹی کی قیادت ان کے پاس جا رہی ہے اب دیکھتے ہیں کی عمران خان اس حوالے سے کیا کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک عمران خان کی رہائی کی بات ہے تو مجھے تو وہ بالکل بھی رہا ہوتے نظر نہیں آ رہے بلکہ اس ساری صورتحال کے پیش نظر خلیج اور بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کاؤنٹر کرنے کی جو حکمت عملی تھی اس میں کنفیوژن نظر آئی ہے اور اتحادی حکومت کی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت اہم کردار ادا کرتی رہی ہے لیکن اب کوئی نظر نہیں آرہا۔
’تمام سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر معاملات حل کریں، ورنہ انتشار ہی رہے گا‘
ان کا کہنا تھا کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری ڈائیلاگ کے حوالے سے کافی مشہور ہیں تو ان کو میدان میں آنا چاہیے اور اس کے علاوہ شہباز شریف اور ایاز صادق کو بھی آنا چاہیے کیوں کہ دونوں کے پاکستان تحریک انصاف میں کافی اچھے تعلقات ہیں۔
عثمان رانا نے کہا کہ اسد قیصر سے بات چیت کرنی چاہیے اور پی ٹی آئی میں بھی ایسی قیادت موجود ہے جو معاملات کو سنبھالنا چاہتی ہے لیکن بد قسمتی سے ایسے افراد کا کردار نظر نہیں آ رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب تک پاکستان کی سیاسی فورسز نہیں مل بیٹھیں گی تب تک انتشار ہی رہے گا۔