انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مطیع اللہ جان کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا
اسلام آباد(قدرت روزنامہ) انسداد دہشت گردی کی عدالت نےمطیع اللہ جان کے جسمانی ریمانڈ پر محفوظ فیصلہ سنا دیا، عدالت نے صحافی مطیع اللہ جان کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
انسدادِ دہشتگردی عدالت کے جج طاہر عباس سِپرا نے کیس کی سماعت کی۔صحافی مطیع اللہ جان کو انسدادِ دہشتگردی عدالت پیش کیا گیا۔ پراسیکیوٹر راجانوید، وکلاء صفائی فیصل چودھری، ایمان مزاری، ہادی علی عدالت میں پیش ہوئے۔
پراسیکیوٹرراجانوید نے مطیع اللہ جان کے 30 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جبکہ وکیل صفائی کی جانب سے مطیع اللہ جان کو مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کی۔
وکیل صفائی ہادی علی نے کہا کہ مطیع اللہ جان کے خلاف درج مقدمہ بہت مزاکہ خیز ہے، مطیع اللہ جان سینیر ناموں صحافی ہیں، حق گوئی پر جانے جاتے ہیں، مطیع اللہ جان پمز رات کو پہنچے تو لوگوں نے سیلفیاں لیں، مطیع اللہ جان کے ساتھ صحافی ثاقب بشیر بھی موجود تھے، مطیع اللہ جان پمز میں احتجاج میں جانبحق کارکنان کی رپورٹنگ کررہےتھے۔
صحافی ثاقب بشیر کا بیان حلفی انسداددِہشتگردی عدالت پیش کردیاگیا۔
وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ احتجاج میں کارکنان پر ڈائریکٹ فائر کیاگیا، اس پر جج طاہر عباس سِپرا نے کہا کہ گولیاں، فائرنگ وغیرہ مسئلہ نہیں ہے، سیاسی تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
وکیل فیصل چودھری نے کہا کہ آپ نے ریمارکس دیے تھے مقدمہ میں نیلا شاپر تو تبدیل کرلو، مطیع اللہ جان کے خلاف مقدمہ میں شاپر کا رنگ سفید کر دیا گیا ہے۔
معزز جج نے کہا کہ الزامات میں دو چیزوں کو سامنے رکھا جائے، بتایا جارہا کہ مطیع اللہ جان صحافی ہیں جن سے ایسے واقعے کی توقع نہیں، کیا اس بنیاد پر ڈسچارج کیاجائے؟، میں بھی مطیع اللہ جان کو جانتاہوں، مشہور صحافی ہیں،کیا کوئی صحافی نڈر ہو، حکومت پر تنقید کرے تو کیا کبھی کوئی جرم نہیں کرسکتا؟ ، کیا میں نے اپنی زاتی معلومات کی بنیاد پر فیصلہ کرنا؟۔
وکیل فیصل چودھری نے کہا کہ کس جواز پر مطیع اللہ جان کا تیس روزہ جسمانی ریمانڈ مانگا؟ تین روز کا بھی نہیں بنتا۔
جج طاہرعباس سِپرا نے کہا کہ ریاست کا موقف ہے گولیاں آپ چلا رہےتھے۔ پراسیکیوٹرراجانوید نے کہا کہ مطیع اللہ جان سے آئیس برآمد کرنی ہے، پراسیکیوٹر کے اس جملے پر عدالت میں قہقہے لگ گئے، دیکھنا ہے مطیع اللہ جان کے پاس منشیات آئی کہاں ہے،پراسیکیوٹرراجانوید کے جملے پر عدالت میں ایک بار پھر قہقہے۔
پراسیکیوٹر راجا نوید نے کہا کہ مطیع اللہ جان کا تفتیش کے غرض سے جسمانی ریمانڈ چاہیے، انسددِمنشیات کے قانون میں 90 دن کے جسمانی ریمانڈ کی اجازت ہے، مطیع اللہ جان کا کم سے کم 30 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔
وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ پراسیکیوشن نے کہانی بنائی، انہوں نے تو منشیات برآمد کرلی ہیں۔صحافی ثاقب بشیر روسٹرم پر آگئے۔ صحافی ثاقب بشیر نے کہا کہ حیرت کی بات ہے مطیع اللہ جان آئیس لیتےہیں اور چرسی بھی ہیں۔
مطیع اللہ جان کو چرسی تو نہیں کہا، جج طاہرعباس سِپرا کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔معزز جج نے کہا کہ قلم کے ساتھ اسکرین آگئی ہیں تو معاملہ خراب ہوگیاہے۔
صحافی نے کہا کہ رات گئے پوچھا گیا سگریٹ کون پیتاہے، میں اور مطیع اللہ جان نے کہا سگریٹ نہیں پیتے اور کیس آئیس کا بنا دیا، انسداددِہشتگردی عدالت دہشتگردوں کے لیے ہے، صحافیوں کے لیے نہیں۔
بعد ازاں مطیع اللہ جان کے جسمانی ریمانڈ پر فیصلہ محفوظ کرلیاگیا۔ عدالت نے مطیع اللہ جان کو فیملی سے ملاقات کی اجازت دےدی۔
پی ایف یو جے کی شدید مذمت:
ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز (ایمنڈ) اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے اسلام آباد میں سینئر صحافی مطیع اللہ جان کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مقیم سینئر صحافی مطیع اللہ جان کے ٹوئٹر (ایکس) اکائونٹ پر ان کے بیٹے کی جانب سے شیئر کی گئی پوسٹ میں کہا گیا تھا کہ ’میرے والد کو پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) سے نا معلوم مسلح افراد نے اغوا کرلیا ہے۔
بعد ازاں اسلام آباد پولیس نے مطیع اللہ جان کی گرفتاری ظاہر کرتے ہوئے آگاہ کیا تھا کہ مطیع اللہ جان کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے، مطیع اللہ جان کو ناکے پر روکا گیا تو انہوں نے پولیس سے اسلحہ چھین کر اہلکاروں پر تان لیا، تاہم اہلکاروں نے ملزم کو قابو کرلیا، ان کی گرفتاری کے وقت گاڑی کی تلاشی لی گئی تو 246 گرام آئس بھی برآمد ہوئی، ملزم کی شناخت مطیع اللہ جان ولد عبدالرزاق عباسی کے نام سے ہوئی۔ مقدمے میں مختلف دفعات شامل کی گئی ہیں۔