’خیبرپختونخوا سے ڈی چوک کیلئے پی ٹی آئی کا ہجوم نکلا تو ابتدائی طور پر ہی سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے کیونکہ ۔ ۔ ۔‘ سینئر صحافی نے اندر کی بات بتادی
اسلام آباد(قدرت روزنامہ)ملک کو کئی روز کیلئے لاک کیے جانے کے باوجود پی ٹی آئی کے کارکنان کسی نہ کسی طرح وفاقی دارلحکومت پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں سے متضاد دعوے سامنے آئے، اب سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے بھی اس پر روشنی ڈالی ہے ۔
روزنامہ “جنگ” میں چھپنے والے اپنے کالم میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ ’ پختونخوامیں لوگوں کا اکٹھ ہوا مارچ چلنا شروع ہوا تو اہل اقتدار کے فوراً کان کھڑے ہوگئے ،دو چیزیں انکی نظر میں بہت خطرناک تھیں ایک تو 35 ہزار افراد کا پرجوش ہجوم جس میں زیادہ تر نوجوان تھے اور دوسری طرف بشریٰ بی بی کی جلوس میں موجودگی، بشریٰ بی بی کا اہل اقتدار کے پاس نہ کنٹرول تھا اور نہ اس کاکوئی اندازہ تھا کہ وہ کیا کرڈالے گی اور اس کے فیصلے لڑائی کی طرف بڑھائیں گے یا پھر آخر میں صلح کا راستہ نکلے گا؟
ریاست کے پاس ایسے جدید آلات آ گئے ہیں کہ وہ فضا سے یہ جائزہ لے سکتے ہیں کہ ہجوم کا سائز کتنا ہے یہ آلات بالکل صحیح تعداد سے آگاہ کرتے ہیں ،جب 35ہزار کے جلوس کی اطلاع ملی تو ابتدائی طور پر سب کے ہاتھ پائوں پھول گئے تھے جلوس والے حکومت اور مقتدرہ کو تگنی کا ناچ نچانا چاہتے تھے جبکہ مقتدرہ انہیں جال میں پھنسانا چاہتی تھی۔دونوں کے مقاصد واضح اور متضاد تھے۔
تحریک انصاف نے سفر شروع کیا تو جذبہ یہی تھا کہ ہر صورت ڈی چوک پہنچنا ہے، دھرنا دینا ہے اورخان کو رہا کروا کے لانا ہے۔پی ٹی آئی اپنی اسی منصوبہ بندی کے تحت رک رک کر اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئی۔بشریٰ بی بی کی جذباتی تقریروں نے مجمع کو بھڑکائے رکھا ،دوسری طرف اہل اختیار بھی جال تیار کئے بیٹھے تھے کہ جھانسی کی رانی کو جھانسہ کیسے دینا ہےچنانچہ تیاری کی گئی کہ انہیں بار بار روکا جائے تاکہ مظاہرین تھک جائیں حکمت عملی یہ تھی کہ مقابلہ نہیں کرنا، انہیں روکنا ہے ،اگر لڑائی کی نوبت آئے تو پیچھے ہٹنا ہے ،یوں جوش بھرے جلوس کو لڑتے بھڑتے ناکے پار کراتے اسلام آباد کے قریب آنے دیا گیا۔
یہاں تحریک انصاف اور بشریٰ بی بی نے ریاست کو ایک زبردست سرپرائز دیا ،ریاست کی تیاری یہ تھی کہ جلوس ایک دن بعد ڈی چوک پہنچے گا مگر مظاہرین نے شدید دبائو ڈالا اور حکومت کی توقعات کے برخلاف ایک دن پہلے ہی ڈی چوک پہنچ گیا اس حیران کن اور تیز ترین اقدام سے وقتی طور پر فیصلہ ساز پریشان ہو گئے اصل میں ان کی حکمت عملی یہ تھی کہ مظاہرین کو تھکایا جائے اور دوسرا انہیں زیادہ سے زیادہ بھوکا رکھا جائے اسی لئے راستے میں موجود تمام کھانےپینے کی دکانیں بند کر دی گئی تھیں۔
منصوبہ یہ تھا کہ ڈی چوک کے پھندے میں بھوکے اور تھکے ہوئے مظاہرین پہنچیں گے تو ان سے نمٹنا آسان ہو گا۔ راستے میں آپریشن ہوتا تو زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے جانی نقصان کا اندیشہ تھا ،اسلئے یہی سوچا گیا کہ ڈی چوک کا پھندا سب سےبہتر رہے گا۔ دوسری طرف اسلام آباد میں داخل ہوتے ہی بشریٰ بی بی اور مظاہرین کے حوصلے بلند ہوگئے انہیں لگا کہ وہ فتح یاب ہو چکے ہیں ہرطرف سے بی بی کے لئے واہ واہ کا شور اٹھ رہا تھا، فتح کےپھریرےلہرا رہے تھے۔
ہم میڈیا والے یہ تاثر دے رہے تھے کہ جذبہ ،جنون جیت گیا ناکے اور پابندیاں ہار گئیں۔ پی ٹی آئی جیت چکی ،ریاست اور حکومت ہار چکیں اسی دوران مسلسل ہجوم کی مانیٹرنگ جاری رہی ،ڈی چوک پہنچنے تک مظاہرین کی تعداد 30 سے 35ہزار تک قائم رہی ۔سات سے آٹھ بجے کے دوران ریاست اور حکومت کے اعلیٰ فیصلہ سازوں کا ایک اہم اجلاس ہوا جس میں صورتحال کا جائزہ لیا گیااور حتمی طور پر یہ فیصلہ کرلیا گیا کہ آج رات ہی آپریشن ہونا ہے ۔اسی دوران رات 9بجے فضا میں اڑنے والے ہیلی کاپٹر نے اطلاع دی کہ مجمع چھٹنا شروع ہو گیا ہےاور اب یہ تعداد 35ہزار سے کم ہو کر 15ہزار رہ چکی ہے ۔
فوری طور پر آپریشن کی تیاری شروع کر دی گئی، طے یہ ہوا کہ جب ہجوم 8سے 10ہزار رہ جائے تب آپریشن کا آغاز کیا جائے، فیصلہ سازوں کو یہ احساس ہوا کہ اگر مظاہرین تھک چکے ہیں تو ان سے نبرد آزما پولیس اور رینجرز کے لوگ اور بھی زیادہ تھک چکے ہیں ،اسی لئے ان سے آپریشن کروانے میں ناکامی کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔2500سے 3000تک تازہ دم دستے جلدی میں تیار کئے گئے ،مجمع گاہ کے ارد گرد روشنی بند کر دی گئی، ریستوران اور کھانے پینے کی دکانیں بھی مکمل طور پر بند تھیں ،مظاہرین بھوکے تھے ،تھکے ہوئے تھے، اندھیرے میں انہیں نظر بھی آنا بند ہو گیا۔یہی وہ لمحہ تھا کہ آپریشن شروع کیا گیا گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کو لیک کر دیا گیا کہ آپریشن بس شروع ہونے ہی والا ہے ،یہ خبر پاتے ہی دونوں ایک گاڑی میں بیٹھ کر نکل گئے۔
آپریشن کا آغاز آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں سے کیا گیا،فیصلہ یہ تھا کہ مظاہرین کو بھاگنے کا موقع دیا جائے گا ،پیچھے کوئی پولیس فورس ،کوئی ناکہ نہیں تھا اب جب سامنے سے 3ہزاراہلکاروں پر مشتمل تازہ دم دستے نے ہلہ بولا ،آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلیں ،جب وہ بھوکے اورتھکے ہوئے لوگوں کی طرف بڑھے تو ان کے پاس سوائے پیچھے کو بھاگنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ یہاں ایک اور دلچسپ واقعہ بھی سنانے کے قابل ہے ۔
بشریٰ بی بی کو اسلام آبادسے نکلتے ہوئے ایک پولیس پارٹی نے شناخت کر لیا، فیصلہ سازوں سے پوچھا گیا کہ کیا اسے گرفتار کر لیا جائے ؟ایک سیانے نے مشورہ دیا کہ بالکل نہیں اسے بھاگنے دیا جائے ،وہ گرفتار ہوئی تو ہیروئن بن جائے گی گرفتاری تو ہم کبھی بھی ڈال سکتے ہیں یوں بشریٰ بی بی کی جرات و بہادری کے راستے میں یہ مشورہ آڑے آ گیا اور بی بی کو جانے دیا گیا ۔یوں یہ رزمیہ کہانی ،ہیرو کی بجائے ولن پیدا کرکے تمام ہوگئی۔
ڈی چوک آپریشن کے حوالے سے سب سے زیادہ زیر بحث موضوع حکمت عملی نہیں بلکہ انسانی جانوں کا ضیاع ہے، انسانی جان تو ایک بھی جائے تو ناقابل تلافی نقصان ہے مگر پی ٹی آئی اور اس کے حامی یوٹیوبر ز نے تواتر کے ساتھ اس قدر جھوٹ بولے ہیں کہ ان کے دعوئوں پر یقین کرنا مشکل ہے۔
یہ کام کلثوم نواز کی بیماری کو جھوٹا اور جعلی ثابت کرنے سے شروع ہوا اور اس کا آخری مرحلہ ایک نجی کالج کی طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کے جھوٹے واقعہ کی تشہیر سے ہوا، بار بار کے جھوٹ، ان کے سچ کو بھی دھندلانا شروع ہو گئے ہیں جب تک لاشیں، جنازے اور ثبوت سامنے نہیں لائے جاتے سب دعوے کھوکھلے اور ماضی کی جھوٹی خبروں کا اعادہ ثابت ہونگے۔
جتنا بڑا ہجوم تھا جتنا بڑا واقعہ تھا اس میں جانی نقصان تو ہونا تھا۔ یہ عاجز صحافی تو بار بار متنبہ کرتا رہا کہ لانگ مارچ میں لازماً خون بہے گا وہ بہہ کر رہا، اب بھی ضرور کچھ نہ کچھ لوگ زندگی ہارے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ قانون نافد کرنے والے اداروں کے 6لوگ جاں بحق ہوئے اور تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس کے سینکڑوں لوگ جان سے گئے۔
لاشیں تو ابھی 6ملی ہیں جن کو جاننے کیلئے تحریک انصاف کے چیئرمین گوہر علی کی سربراہی میں کمیشن بنا دیا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ میرا شروع سے ہی اندازہ تھا کہ جھوٹے خود ہی جھوٹ کےجال میں پھنس جاتے ہیں انہیں اپنا دعویٰ ثابت کرنا ہے تو اس کمیشن میں لاشیں یا ثبوت پیش کریں‘۔