’16 برس کی عمر میں جھنگ سے اکیلی اپنے گھر سے نکلی تھی اور آج۔۔۔‘ 26 سالہ پاکستانی لڑکی کی وہ کہانی جو ہر پاکستانی نوجوان کو ضرور پڑھنی چاہیے

جھنگ (قدرت روزنامہ)محنت میں عظمت ہے اور محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی، یقیناََ یہ جملے اور ضرب المثل آپ نے کبھی نہ کبھی اپنی زندگی میں سنے ہونگے، مگر آپ یہ جان کر حیران رہ جائینگی کہ ان ضرب المثل کو سامنے رکھتے ہوئے 16سجھنگ کے گائوں میں رہنے والی ماہہ یوسف نے نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ ماہہ یوسف دنیا کی ممتاز ترین سٹینفرڈ یونیورسٹی سے سکالر شپپر کیمیکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ ان کی محنت سے عبارت زندگی کی کہانی ایک ویب سائٹ نے تفصیل سے شائع کی ہے جس میں ماہہ یوسف نے بتایا ہے کہ میری پیدائش جھنگ کے ایک گاؤں میں ہو ئی اور میری ابتدائی تربیت ایک قدامت پسند گھرانے میں ہوئی۔

میں اپنے خاندان کی پہلی لڑکی ہوں جو ہائی سکول تک پہنچی۔ کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے ملازمت شروع کردی تھی اور میں ریاست کولمبیا میں ایمازون کے جنگلات میں تیل کے کنووں پر ڈرلنگ سپیشلٹ کے طور پر بھی کام کرتی رہی ہوں۔ ان دنوں مجھے روزانہ 16 گھنٹے سے زائد کام کرنا پڑتا تھا۔ سونا بھی سائٹ پر کھڑے ٹرک میں پڑتا تھا، اور بعض اوقات میں وہاں کام کر نے والوں میں تنہا خاتون ہوتی تھی۔ یہ بہت مشکل کام تھا لیکن مجھے اپنے کام پر فخر تھا۔“اپنے سفر کے اگلے مرحلے کے بارے میں وہ بتاتی ہیں کہ ”کولمبیا میں موجودگی کے دوران ہی میں نے سٹینفرڈ کے گریجویٹ سکول میں داخلے کے لئے درخواست دی اور مجھے داخلہ مل گیا۔ اب میں سٹینفرڈ سے کیمیکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کررہی ہوں۔“سٹیفرڈ یونیورسٹی میں اپنے تحقیقاتی کام کے متعلق وہ بتاتی ہیں ”میری تحقیق کا موضوع نئی قسم کے انتہائی طاقتور ایکس رے امیجنگ سسٹم کی تیاری ہے جو موجودہ روایتی ایکس رے امیجنگ ٹیکنالوجی کو بدل دے گا۔ میرا کام بہت سے شعبوں سے منسلک ہے جن میں آپٹکس،ایکس رے فزکس، مائیکرو فلوئیڈز، کیمسٹری اور کمپیوٹر سائنس شامل ہیں۔ یہ نئی ٹیکنالوجی کینسر کی تشخیص بہتر طریقے سے کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگی۔“ماہہ کی کامیاب زندگی میں سب سے اہم کردار کس کا ہے، اس کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ”میری ماں کو میرے اوپر بہت فخر ہے اور ان کے حوصلہ افزا الفاظ نے ہمیشہ مجھے آگے بڑھنے کی ہمت دی ہے۔ “26 سالہ ماہہ یوسف سٹینفرڈ جانے سے قبل نسٹ یونیورسٹی میں کیمیکل انجینئرنگ کی طالبہ تھیں۔ حال ہی میں انہیں ”شلمبرگر فیکلٹی فار دی فیوچر فیلوشپ ایوارڈ برائے پی ایچ ڈی“ سے نوازا گیا ہے۔ ماہہ نے اپنی کہانی سناتے ہوئے لکھا ہے کہ ”میں 16 سال کی تھی جب میں نے گھر چھوڑا اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے لئے میں نے بے حد محنت کی ہے ۔