’میں ایک دن پلٹوں گا‘، اداکار کاشف محمود نے ایسا کس بات پر کہا؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)ملک کے باصلاحیت اداکار کاشف محمود ان فنکاروں میں شامل ہیں جنہوں نے انڈسٹری میں اپنا مقام راتوں رات نہیں بنایا بلکہ اس کے لیے انہیں خاصی مشکلات سہنی پڑیں۔
پروگرام مذاق رات میں انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کس طرح وہ کئی برس معمولی رولز کرتے رہے اور پھر جب ان کا ایک ڈراما سپر ہٹ بھی ہوا تو اس کا بھی ایک ٹی وی چینل نے معاوضہ نہیں دیا۔
کاشف محمود کو کڑے معاشی مسائل کا سامنا رہا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور پھر بالآخر ان کی اداکاری کا جادو سر چڑھ کر بولا اور زندگی ایک ڈگر پر آگئی۔
ان کا شمار ایسے فنکاروں میں ہوتا ہے جو سماجی اور سیاسی مسائل پر اپنے ذہن کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک طویل سفر طے کیا اور اب ان کا کام بتاتا ہے کہ وہ کتنے اچھے اور محنتی فنکار ہیں۔
کاشف محمود نے بتایا کہ وہ 7 سال تک ایکسٹرا کردار ادا کرتے رہے اور انہیں ڈراموں میں مرکزی کردار تو درکنار سپورٹنگ کردار بھی نہیں مل پاتے تھے۔
ابتدا میں جو ان کی ایک کامیابی تھی اس کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پی ٹی وی پر ایک ڈرامے میں ریشم کے ساتھ ان کا بہت ہی مختصر شاٹ لیا گیا جس میں ان کا ایک بھی ڈائیلاگ نہیں تھا اور وہ صرف اداکارہ کی بات سنتے دکھائے گئے تھے۔
اس شاٹ میں ان کی پشت دکھائی دے رہی تھی اور اس وقت ان کے بال خاصے لمبے تھے اور انہوں نے ایک ہرے رنگ کی جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ اب چوں کہ اس میں ان کا چہرہ نظر ہی نہیں آرہا تھا تو انہیں عزیزوں اور دوستوں کو بتانا پڑا کہ دیکھو! اس سین میں ریشم کے ساتھ جو کھڑا ہے وہ میں ہوں۔
اس صورتحال پر کاشف محمود نے ایک بہت ہی شاندار بات کہی جو یہ تھی کہ اپنے دوستوں کو اس سین میں اپنے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ میں ہوں جس کی پیٹھ دکھائی دے رہی ہے ’لیکن ایک وقت آئے گا جب میں پلٹوں گا‘۔ اور وہ بالکل درست ثابت ہوئے ان کی انتھک محنت اور استقلال پھر وہ وقت لے ہی آیا جب نہ صرف انہوں نے اسکرین کی جانب اپنا رخ کیا یعنی وہ پلٹے اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا یعنی پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کا چہرہ اسکرین سے ہٹا نہ سکی اور وہ ترقی کی منازل طے کرتے چلے گئے۔
اپنے سپر ہٹ ڈرامے ’آشیانہ‘ کے سفر کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے وہ ڈراما بنانے کی ٹھانی تو اس وقت ان کی جیب میں موٹرسائیکل میں ڈالنے کے لیے ایک لیٹر پیٹرول تک کے پیسے نہیں ہوتے تھے اور ان کا اس وقت کا وہ مجوزہ ڈرامہ 22 یا 23 لاکھ روپے کے بجٹ کا متقاضی تھا۔
کاشف محمود نے کہا کہ ’مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک لاکھ روپے اکٹھے کرکے اس ڈرامے کی پہلی قسط بنائی جس کے لیے اپنی ماں کے زیور بیچنے پڑے اور گھر بھی گروی رکھنا پڑا‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پھر اس ڈرامے کی کیسیٹ لے کر ایک ٹی وی چینل گئے جہاں ایک صاحب نے ڈرامے کے حوالے سے سننے کے باوجود یہی کہا کہ ’تو کیا ہوا‘، بہر حال پھر ان صاحب نے وہ بدر خلیل کو بھجوادیا جنہوں نے اسے دیکھنے میں 7 یا 8 روز لگا دیے لیکن دیکھنے کے بعد انہوں نے انہیں بلاکر ڈرامے کی بہت تعریف کی اور پھر انہوں نے بقیہ قسطیں بھی کسی طرح بنالیں۔
المختصر ڈرامہ چلا اور سپر ہٹ ہو گیا لیکن پھر وہ چینل ہی بند ہوگیا اور دوبارہ کھلنے کے باوجود کاشف محمود کو کبھی ان کے پیسے نہیں مل سکے۔ اس کے بعد وہ ڈراما پی ٹی وی پر چلا اور بالآخر اس سے انہیں خاصا منافع ہوا اور پھر اس پیسے سے انہوں ن قرضہ بھی چکایا اور مزید کام بھی کیے۔